Advertisements

نوری اور برقی خط

Riaz ul Haq
Advertisements

تحریر: ریاض الحق بھٹی

تاریخ ِعالم بتاتی ہے کہ خط وکتابت اور خطاب کا عمل صدیوں سے جاری ہے، اسے آپ مکالمہ بھی کہہ سکتے ہیں جس کی بالکل حتمی تاریخ سے آج تک تاریخ ِ انسانی بھی بے خبر ہے۔یہ محض قیاس آرائی ہے کہ خط و کتابت، خطاب اور مکالمے کا عمل ایک مدت سے جاری ہے کیونکہ انسانی زندگی اس عمل کے بغیر نامکمل تھی اور آج تک ادھوری ہے۔ایک صاحبِ علم بتا رہے تھے کہ ربِ عظیم نے یہ دنیا بنانے سے بھی ایک ہزار سال قبل قرآنِ مجید کی معروف سورۃ ”سورۃ یٰسین“ کی خود تلاوت فرمائی تھی۔

Advertisements

یہ تاریخ ہی ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق کو بھیجے جانے والے خطوط میں بے شمار صحیفوں کے علاوہ معروف خط یعنی آسمانی کُتب تورات، زبور اور انجیل کے بعد انتہائی معتبر، مستند اور قابلِ تعریف عمل آخری خط یعنی”قرآن مجید“ کابھیجنا ہے جس کی ہر دور میں وقت نے تصدیق کی ہے۔ اس قدیم خط کی روشنی میں انسان آج، دور جدید میں بھی روشنی اور ہدایت پا کر یکساں، بہترین او رمفید زندگی بسر کر سکتا ہے۔اس خط کی اہمیت و ضرورت سے مسلمان ہی نہیں کافر بھی مستفید ہو رہے ہیں۔

موجودہ عہد برقی خطوط یعنی مختلف وٹس ایپ اور سوشل میڈیا پوسٹس کا عہد ہے۔ اس حوالے سے آج آپ کی خدمت میں دو خطوط پیش کر رہے ہیں جو آپ کی توجہ کے طالب ہیں۔

پہلا خط
آج سے تقریباً 25 برس قبل تبلیغی جماعت کے ایک بہت بڑے عالم اور بزرگ شخصیت حضرت مولانا محمد احمد بہاول پوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک تبلیغی اجتماع سے خطاب کے دوران ایک واقعہ سناتے ہوئے فرمایا کہ میرا ایک عزیز میرے پاس آیا اور کہا کہ حضرت! مجھے اسلام آباد میں معیشت کے موضوع پر منعقدہ ایک کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے اور مجھے اس کانفرنس میں معیشت کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور ہدایات پر روشنی ڈالنے کو کہا گیا ہے۔لہٰذا اس بارے میں آپ کی رہنمائی درکار ہے،تو حضرت نے فرمایا! میں تمہیں اسلامی معیشت کا خلاصہ تو بتا دوں گا اور انتہائی مختصر انداز یعنی صرف تین ہی جملوں میں ساری اسلامی معیشت سمجھا بھی دوں گالیکن خیال کرنا،یہ باتیں سن کر کانفرنس میں موجود اشرافیہ کی طرف سے کہیں تمہیں جوتے ہی نہ پڑ جائیں۔اس شخص نے کہا،حضرت!ان کے جوتوں سے تو میں خود کو کسی نہ کسی طرح بچا ہی لوں گا لیکن فی الحال آپ میری مدد فرمائیں،تو مولانا نے فرمایا،اگر تمہیں یہی منظور ہے تو پھر لکھ لو۔اسلامی معیشت کے تین سنہری اصول ہیں جن میں سب سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ معاشی اعتبار سے ملک کا سب سے بڑھیا آدمی معاشی اعتبار سے سب سے گھٹیا زندگی گزارے جیسا کہ خلفائے راشدین نے بھی عملًا ایسا کیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں مدینہ منورہ میں مفلسین ومساکین کی ایک فہرست تیار کی گئی اور ان کی درجہ بندی کی گئی اور جب فہرست تیار ہو گئی تو مفلسی میں سب سے پہلے نمبر پر جو نام آیا وہ خود خلیفہ وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام تھا۔یاد رکھنا کہ عوام ہمیشہ اپنے بڑوں کو دیکھ کر ان کے طرزِ زندگی کو اپنانے اور ان سے برابری کی کوشش کرتے ہیں اور اگر حاکمِ وقت ہی معاشی اعتبار سے سب سے مضبوط تر ہو تو عوام بھی اس کے طرزِ زندگی کو اپنانے کی کوشش کریں گے اور اسی کو ہی اپنا معیار بنالیں گے جس سے معاشرے میں حرص، لالچ اورپیسہ جمع کرنے کی ہوس بڑھ جاتی ہے اور نتیجتاً عوام میں حلال و حرام اور جائز وناجائز کی تمیز ختم ہو جاتی ہے اور معاشرے میں جھوٹ، دھوکہ دہی، رشوت،سود خوری اور ذخیرہ اندوزی جیسی ساری مصیبتیں در آتی ہیں اور اگر سب سے بڑھیا لوگ یعنی حکمران طبقہ سب سے نیچے والا معیارِ زندگی اپنائیں گے تو پھر کسی بھی شخص کو غربت افلاس وغیرہ پر کوئی شرمندگی اور احساس محرومی نہیں ہوگا۔ اسلامی معیشت کا دوسرا اصول یہ ہے کہ دولت کو کبھی بھی اور کسی بھی طرح ایک جگہ جمع نہ ہونے دو کہ وہ کسی ایک جگہ پر جم کر رہ جائے بلکہ اس کو توڑتے رہو تاکہ ملکی دولت پر چند اشخاص کا قبضہ نہ رہے۔اس کے لئے سب سے پہلے موجودہ بنکی نظام کو ختم کرنا ہوگاجس کا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ بنکوں میں پڑا سارا پیسہ باہر نکال کر مارکیٹ میں لے آئیں گے اورکاروبار کریں گے،کارخانے لگائیں گے جس سے ایک تو ملک میں بیروزگاری ختم ہوگی اور دوسری طرف مقابلے کی فضا پیداہوگی جس سے ہر کوئی اپنی بنائی ہوئی چیز بہتر سے بہتر اور سستی سے سستی بنانے کی کوشش کرے گا اور اس سے عالمی سطح پر تمہاری پیداوار سب سے سستی بھی ہوگی اور معیاری بھی، اوریہ دونوں کام حکومتِ وقت اور حکمران طبقہ کے کرنے کے ہیں۔اسلامی معیشت کاتیسرا اصول یہ ہے کہ ضرورت سے زائد چیزیں اورپیسہ اپنے پاس نہ رکھو بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی مخلوق پر، اپنے رشتہ داروں، ماتحتوں، نوکروں اور پڑوسیوں پر خرچ کرتے رہوجس کے بدلے میں وہ نہ صرف پورے اخلاص کے ساتھ تمہارے کاروبار میں مدد کریں گے بلکہ اس کے بڑھنے کی تمنا بھی کریں گے اور دعائیں بھی دیں گے۔بجائے اس کے کہ وہ تم سے حسد کرنے لگیں، تم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں، تم سے چوری کریں، تم پر ڈاکہ ڈالیں یا پھر تم سے تمہارامال چھینیں۔

دوسرا خط
ذوالفقار علی بھٹو صاحب فرانس کے دورے پر گئے تو فرانس کے صدر اسکارڈ اسٹینگ نے پیرس کے مضافات میں اپنے فارم ہاؤس پر ان کے اعزاز میں ایک پرائیوٹ عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں دونوں سربراہانِ مملکت کے خاندانوں سمیت چندقریبی احباب بھی شریک ہوئے۔یہ ورکنگ ڈنر کے بجائے ایک فیملی بیٹھک تھی جس کا مقصد تفریح اوردونوں خاندانوں کے درمیان روابط پیدا کرنا تھا۔کھانے کے بعداسکارڈ اسٹینگ اورذوالفقار علی بھٹو فارم ہاؤس میں چہل قدمی کے لئے نکلے تو راستے میں جگہ جگہ بتیاں روشن دیکھ کر بھٹو صاحب نے کہا، جناب صدر! آپ کے ملک میں بجلی اتنی وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے کہ مضافات میں بھی روشنی ہے؟اسکارڈاسٹینگ نے جواب دیا کہ ہاں ہم پن بجلی کے ساتھ ساتھ ایٹمی بجلی بھی پیدا کر رہے ہیں اوربجلی وافر مقدار میں ہے لیکن ہم ابھی بھی ان مضافات میں بجلی نہیں پہنچا سکے اوریہاں ایک جنریٹر کی مدد سے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ان دنوں جنریٹر عام نہیں تھے چنانچہ بھٹو صاحب نے جنریٹر دیکھنے کا اشتیاق ظاہر کیا تو صدراسکارڈ اسٹینگ انہیں لے کر جنریٹر روم میں چلے گئے جو اتفاق سے قریب ہی بنا ہوا تھا۔بھٹو صاحب نے جنریٹر کو بڑی دلچسپی سے دیکھا اور اس کی کارکردگی اور انجن کے بارے میں استفسار کیا، جس پر جنریٹر آپریٹر نے انہیں تفصیلاًبریف کیا۔اس مشین میں بھٹو صاحب کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے فرانسیسی صدر اسکارڈ اسٹینگ نے کہا، جناب وزیراعظم! ایسا ہی ایک جنریٹر پاکستان واپسی پر آپ کے ساتھ بھیج دیاجائے گا جو میری فیملی کی طرف سے آپ کی فیملی کے لئے چھوٹا سا تحفہ ہوگا، قبول کیجئے۔ذوالفقار علی بھٹو مسکرائے، گرمجوشی سے فرانسیسی صدر کا شکریہ ادا کیا اور دھیرے سے بولے،جناب صدر! میں ایک غریب ملک کا وزیراعظم ہوں،میرے ملک میں بجلی کی بہت قلت ہے،وافر بجلی نہ ہونے کے سبب انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے،روشنی کی کمی کے باعث بہت سے طالب علم حصولِ علم سے محروم رہ جاتے ہیں، مریضوں کا بر وقت آپریشن نہ ہونے سے مریض مر جاتے ہیں،ٹیوب ویل نہ چلنے سے فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں،ایسے میں اگر میرے گھر میں آپ کے دیئے ہوئے تحفے سے روشنی ہوگی تو یہ میرے عوام کے ساتھ سخت زیادتی اور ناانصافی ہوگی۔صدر اسکارڈ اسٹینگ نے چلتے چلتے رُک کر حیرت بھری نظروں سے ذوالفقار علی بھٹو کو دیکھا اور فرطِ عقیدت سے ان کا ہاتھ تھام لیا اور کانپتی ہوئی آواز میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا، جنابِ وزیراعظم! بتائیں میں آپ کے ملک کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟بھٹو نے دوسرا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھا، گہری نظروں سے انہیں دیکھا اور بولے،جنابِ صدر! ایک ایٹمی ری ایکٹر میرے ملک میں بھی لگا دیجئے جو میرے پورے ملک میں بجلی کی قلت کو پورا کر سکے۔اسکارڈ اسٹینگ رُکا، چند لمحے سوچا اور پھر دھیرے سے بولا…جنابِ وزیراعظم! یہ ایٹمی ری ایکٹرفرانسیسی عوام کی طرف سے پاکستانی عوام کی زندگی میں روشنی لانے کا استعارہ ہو گا…دوسری صبح جو پہلا کام ہوا وہ اسی منصوبے کے معاہدے پر دستخط تھے اور یہ ایٹمی بجلی گھر بھٹو نے ایک ذاتی جنریٹر کے بدلے میں لیا تھا جو آج بھی کراچی میں کام کر رہا ہے۔

معیشت سے لے کر معاشرت تک اورسماج سے لے کر انسانیت تک کوئی بھی پہلو ایسا باقی نہیں جس کی روایت اور تصدیق ہمیں نوری خط ”قرآن مجید فرقانِ حمید“ سے میسر نہ ہو۔ہمیں آج بھی اسی نوری خط سے ہدایت مل سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں وہ تبدیلی لائیں جس کا حکم اس نوری خط کے ذریعے ہادیِ برحق جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ان کے اہلِ بیت اور صحابہ کرام نے ہمیں عملی طور پر دیا۔