نوبل امن انعام ٹرمپ نظرانداز
اداریہ —– 12 اکتوبر 2025
اس سال کے نوبل امن انعام کا اعلان ہوتے ہی عالمی سطح پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ نوبل کمیٹی نے 2025 کا امن انعام وینیزویلا کی اپوزیشن رہنما ماریا کورینا مچادو کے نام کر دیا، جنہوں نے اپنے ملک میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی بحالی کے لیے طویل جدوجہد کی۔ اس فیصلے نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کو خاص طور پر برہم کر دیا ہے جو عرصے سے دعویٰ کر رہے تھے کہ ٹرمپ کی امن کوششیں انہیں اس اعزاز کا مستحق بناتی ہیں۔
واشنگٹن میں اس فیصلے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور خود ٹرمپ نے اسے ’’سیاسی جانبداری‘‘ قرار دیا۔ ان کے مطابق مشرقِ وسطیٰ میں جنگ بندی کے لیے ان کی کوششیں اور بعض عالمی تنازعات میں مصالحانہ کردار نوبل انعام کا اہل بناتا ہے۔ مگر نوبل کمیٹی کے مطابق فیصلہ کسی سیاسی مصلحت نہیں بلکہ میرٹ اور دیرپا امن کی بنیاد پر کیا گیا۔
ٹرمپ کے دورِ حکومت میں کئی اقدامات وقتی نوعیت کے تھے جن کے مستقل اثرات سامنے نہیں آئے۔ نوبل کمیٹی ہمیشہ ان رہنماؤں کو ترجیح دیتی ہے جن کی جدوجہد اصولی، غیرمصلحتی اور انسانی فلاح پر مبنی ہو۔ ماریا کورینا مچادو کی جدوجہد اسی معیار پر پوری اترتی ہے، کیونکہ انہوں نے آمریت کے خلاف جمہوری اقدار کے لیے اپنی آزادی اور سلامتی کو داؤ پر لگایا۔
یہ فیصلہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ عالمی ادارے اگر سیاسی دباؤ یا طاقتور رہنماؤں کے اثر سے آزاد رہیں تو ہی ان کی ساکھ برقرار رہ سکتی ہے۔ نوبل کمیٹی نے اپنی غیرجانبداری کا ثبوت دے کر دنیا کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا ہے کہ حقیقی عزت اور اعزاز کسی دعوے یا طاقت سے نہیں بلکہ مسلسل خدمت، اصول پسندی اور قربانی سے حاصل ہوتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی نوبل انعام سے محرومی بظاہر ایک نظراندازی ہے، مگر درحقیقت یہ میرٹ، شفافیت اور اصول پسندی کی جیت ہے۔ اگر دنیا میں امن، انصاف اور جمہوریت کو دوام دینا ہے تو ہمیں الفاظ نہیں بلکہ عمل کو بنیاد بنانا ہوگا۔

