عدم اعتماد پر آئین کے تحت عمل ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہےکہ تحریک عدم اعتماد پرآئین کے تحت عمل ہونا چاہیے اور اس میں عدالت کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے تحریک عدم اعتماد اور ڈی چوک پر جلسے و لانگ مارچ سے متعلق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست آج فوری سماعت کے لئے مقرر کی۔ چیف جسٹس عمرعطاء بندیال اورجسٹس منیب اختر پر مشتمل دورکنی بنچ نے درخواست کی سماعت کی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے عدم اعتماد کے روز تصادم کے خطرے کے پیش نظر آئینی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں وزیر اعظم، وزارت داخلہ، دفاع، آئی جی اسلام آباد، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور اسپیکر قومی اسمبلی کو فریق بنایا تھا۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدم اعتماد کا عمل پرامن انداز سے مکمل ہو، عدم اعتماد آرٹیکل 95 کے تحت کسی بھی وزیراعظم کو ہٹانے کا آئینی راستہ ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ سیاسی بیانات سے عدم اعتماد کے روز فریقین کے درمیان تصادم کا خطرہ ہے، سپریم کورٹ تمام اسٹیک ہولڈرز کو عدم اعتماد کا عمل پرامن انداز سے کرنے کا حکم دے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزار کی استدعا سیاسی تناظر میں ہے، عدالت نے ملک کے سیاسی تناظر کو نہیں آئین کو دیکھنا ہے اور قانون پر عملدرآمد ہونا چاہیے، اخبارات سے معلوم ہوا کہ آرٹیکل 63 اے کے حوالے سے حکومت بھی سپریم کورٹ آ رہی ہے، سپریم کورٹ بار لا اینڈ آرڈر کے حوالے سے خدشات رکھتی ہے، ہم نے از خود نوٹس نہیں لیا بلکہ دائر درخواست کو سن رہے ہیں، کل ہم نے ایسا واقعہ دیکھا جو آزادی رائے اور احتجاج کے حق کے خلاف تھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بارے میں تو کوئی دوسرا سوال نہیں ہے، کچھ حکومتی ممبران سندھ ہاؤس میں تھے، جس نے سیاسی ماحول کو گرما دیا، اچانک سیاسی درجہ حرارت بڑھا اور یہ واقعہ ہوا ، عوام پر امن احتجاج کا حق رکھتے ہیں لیکن تشدد کا بھی جواز نہیں ہے، قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جواز نہیں، میں واقعے کا پس منظر بتانا چاہتا ہوں، 100 احتجاج کرنے والوں کو پولیس نے سندھ ہاؤس سے منتشر کیا ، اسکے بعد 20 لوگ احتجاج کرنے آگئے، 13 لوگوں کو حملہ کرنے پر گرفتار کیا اور تھانہ سیکرٹریٹ میں مقدمہ درج کرلیا گیا، آج مجسٹریٹ نے 13 مظاہرین کو رہا کر دیا۔
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد کا تعلق سیاست ہے، اس سے عدالت کا کوئی تعلق نہیں، ہمارے سامنے سندھ ہاؤس واقعے کے علاوہ کچھ بھی توجہ طلب نہیں ہے، سیاسی عمل بہت سے عناصر پر مشتمل ہوتا ہے، سندھ واقعے پر اٹارنی جنرل نے قانون کے مطابق کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے سپریم کورٹ نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی سیاسی جماعتوں تحریک انصاف،مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی، جمعیت علماء اسلام ف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدم اعتماد کا عمل آئین اور قانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پبلک پراپرٹی اور قومی اداروں کو دھمکیاں ملیں، کیا پبلک پراپرٹی پر دھاوا بولنا بھی قابل ضمانت جرم ہے، سیاسی عمل آئین و قانون کے تحت ہونا چاہیے ، ارکان اور اداروں کو تحفظ آئین کے مطابق ملنا چاہیے، امید کرتے ہیں تمام سیاسی فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کرے گی مگر قانونی امور کو دیکھا جائے گا، سندھ ہاؤس کو نقصان پہنچایا گیا ہے، تمام سیاسی جماعتیں قانون کے مطابق برتاؤ کریں اور خلاف قانون کوئی اقدام نہ کریں۔
سپریم کورٹ نے سندھ ہاؤس واقعے پر آئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم اپوزیشن جماعتوں کو کہیں گےکہ وہ بھی قانون کے مطابق عمل کریں، اٹارنی جنرل آپ 63 اےمیں ریفرنس دائر کررہے ہیں، اٹارنی جنرل ریفرنس صبح تک دائرکردیں تاکہ ہم اس کی سماعت کریں۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھاکہ عدالت یقنیی بنائے گی کہ قومی اداروں کو تحفظ فراہم کرے، اٹارنی جنرل آپ 63 اے کے حوالے سے عدالت کی رائے چاہتے ہیں، ہم وہ معاملہ بھی اس درخواست کے ساتھ سن لیتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ اورپارلیمنٹرینز کا احترام کرتے ہیں لیکن عدالت کا پلیٹ فارم کسی فریق کو صورت حال خراب کرنے کے لیے استعمال کرنےکی اجازت نہیں دیں گے، عدالت قانونی سوالات کا آئین کے تحت جواب دے گی۔