١٢ رمضان المبارک نزول انجیل مقدس کے موقع پرخصوصی تحریر

تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی

اللہ تعالی کی شان ہے کہ اس قادرمطلق نے حضرت آدم علیہ السلام کوبغیرماں باپ کے پیداکیا،حضرت اماں حواؑ کو بغیروالدہ کے پیداکیا اورحضرت مسیح علیہ السلام کوبغیرباپ کے پیداکیا۔حضرت مسیح علیہ السلام کوپچیس (۲۵)سال کی عمرمیں نبوت ملی  اور انجیل مقدس آپ پرنازل کی گئی۔آپ حضرت مریم علیہ السلام کے بیٹے تھے اوربنی اسرائیل کی طرف اللہ تعالی کے ہاں سے مبعوث کیے گئے تھے۔آپ علیہ السلام سے متعددمعجزات منسوب ہیں،سب سے پہلاتویہی معجزہ کی آپ علیہ السلام نے بغیرباپ کے وجودپایا،آپ علیہ السلام نے چنددن کی عمرمیں پنگھوڑے کے اندرکلام کیااور اپنی والدہ محترمہ کی پاکدامنی اوراپنی نبوت کااعلان بھی کیا۔آپ مادرزادنابیناکو اللہ تعالی کے حکم سے بینائی عطاکرتے تھے،کوڑھ کے مریض کو شفایاب کرتے تھے،مردوں کوزندہ کردیتے تھے اورمائدہ نامی دسترخوان بھی آپ علیہ السلام کے معجزات میں سے تھاجس پرایک وقت میں ہزارہالوگ کھاناکھاتے تھے لیکن دسترخوان چلتارہتاتھا اورآپ علیہ السلام پرندہ بناکراس میں پھونک مارتے تووہ اللہ تعالی کے حکم سے زندہ ہوکراڑنے لگتاتھا۔حضرت عیسی علیہ السلام کوچالیس (۴۰)سال کی عمرمیں آسمانون پراٹھالیاگیاتھا،اب وہ قرب قیامت میں اذن الہی سے ایک بارپھرتشریف لائیں گے اوراپنی طبعی عمرپوری کریں گے۔

بائیبل کے بڑے بڑے دوحصے ہیں عہدنامہ قدیم اورعہدنامہ جدید۔پہلے حصے میں انجیل سے گزشتہ کتب ہیں اورعہدنامہ جدید دراصل انجیلوں پرہی مشتمل ہے۔حضرت مسیح علیہ السلام کے بعدان کے بہت سارے شاگردوں نے آپ علیہ السلام کے حالات زندگی تحریرکیے ۔ان شاگردوں کو مسیحی کتب میں "رسول” اورقرآن مجید نے "حواری”کے نام دیے ہیں۔چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام  سے ایسی کوئی روایت منسوب نہیں ہے کہ انہوں نے انجیل مقدس کی املاکروائی ہو اس لیے ان شاگردوںکی تصنیفات کواناجیل کانام دیاگیا جب کہ لفظ "انجیل” کالفظی مطلب”خوشخبری”ہے۔یہ نفوس قدسیہ تعلیمات مسیح علیہ السلام کے زندہ رہنے کاباعث بنے اور اللہ تعالی کے وعدوں کے مطابق آج بہشتوں میں خداوندخداکی میزبانی سے لطف اندوزہورہے ہوں گے۔تین صدیوں تک پیروان مسیح علیہ السلام دنیاکے آلام و مصائب کے سامنے صبرکاپہاڑ بن کرکھڑے رہے۔پھرجب مسیحیت کو سرکاری مذہب کادرجہ ملاتو شاہی فرمان کے مطابق چاراناجیل کاانتخاب کرکے توانہیں بائبل مقدس کاحصہ بنادیاگیااورباقی کتب اناجیل کو تلف کردیاگیا۔اس وقت تک چونکہ قلمی نسخے ہوتے تھے اوران کی نقول کارواج نہیں تھااس لیے جو کتب تلف ہوئیں وہ ہمیشہ کے لیے نابودہو چکیں۔باقی رہ جانے والی  چارانجیلیں حضرت مسیح علیہ السلام کے چارمقدس شاگردوں کی تحریریں ہیں اورانہیں کے ناموں سے منسوب ہیں ،جن میں انہوں نے اپنے نبی کے حالات زندگی اوراوران پرنازل ہونے والی آسمانی الہامی کےکتاب "انجیل”کے متعددمندرجات واحکامات شامل کیے تھے۔

          متی کی انجیل،مرقس کی انجیل،لوقاکی انجیل اوریوحناکی انجیل،یہ چارکتب عہدنامہ جدیدکاحصہ ہیں اور "پولوس”کے جوکہ پہلے یہودی تھااورپھرایمان لے آیا،اس کے چودہ خطوط بھی عہدنامہ جدیدکے آخرمیں درج کردیے گئے ہیں۔پہلی تین انجیلوں میں کافی حدتک اتفاقات موجودہیں اس لیے ان تینوں کو”اناجیل متوافقہ”بھی کہتے ہیں جب کہ چوتھی انجیل اور باقی تینوں اناجیل کے بیانات میں بہت تضادنظرآتاہے۔تاریخ میں گاہے گاہے ان کے علاوہ بھی اناجیل دریافت ہوتی رہیں کیونکہ بادشاہ کے حکم پر جب ان چاراناجیل  کے علاوہ باقی اناجیل تلف کی جانے لگیں تو بعض لوگوں نے انہیں مٹی میں،زمین میں یاقبروں میں یادیگرخفیہ مقامات پر دبادیایاچھپادیا۔بعدمیں کھدائیوں کے دوران ہاتھ سے لکھے ہوئے یہ نسخے دریافت ہوتے رہے ۔انہیں میں ایک نسخہ "برناباس”کی انجیل بھی ہے۔برناباس بھی حضرت مسیح علیہ السلام  کے بہت قریبی شاگرداور اللہ تعالی اوراپنے نبی کے مقربین میں سے تھے۔باقی چاروں انجیلوں میں ان کابکثرت ذکرملتاہے،یہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ ساتھ رہتے تھے اورآپ علیہ السلام ان پر بہت مہربان اورشفیق تھے ۔برناباس کی انجیل کا یہ نسخہ  ماضی قریب میں دریافت ہوااور تقریباََدنیاکی تمام بڑی بڑی زبانوں میں ترجمہ ہوکر پھیل گیا۔اس انجیل میں آپﷺ کی آمدکی خبردی گئی ہے اورختم نبوت کی بہت ساری نشانیوں کابھی تفصیل سے ذکر موجودہے۔انجیل مقدس آسمان سے نازل ہونے والی اللہ تعالی کی سچی کتاب ہے جوسچے نبی پر نازل ہوئی،محتاط اندازے کے مطابق یہ کتاب آج بھی شرک سے پاک ہے۔انجیل سے منسوب جوعقائداسلام سے ٹکراتے ہیں وہ اصل میں تو ان چودہ خطوط میں درج ہیں جو "پولوس”کی تحریر ہیں  اوربعدکے کسی زمانے میں عہدنامہ جدیدمیں داخل کردیے گئے تھے۔جب کہ پولوس نے اہل ایمان پر بے پناہ ظلم ڈھائے تھے اورحضرت مسیح علیہ السلام کے مقدس ساتھیوں کے ساتھ اکثراس کاجھگڑابھی رہتاتھا۔

          اناجیل جس  زبان میں لکھی گئیں  وہ آج نابودہے۔ان کتب کے متعددزبانوں میں ترجمے ہوتے رہے اور ترجمے سے موادکی اصلیت کافی حدتک حقیقت سے دورہوجاتی ہے۔پھرجب بہت سی زبانوں میں ترجمے ہوکریہ  کتب موجودہ حالت تک پہنچیں توان میں سوفیصداصلیت اورحقیقت کاباقی رہ جاناممکن نہیں خاصٍ طورپر جب ترجمے کے ساتھ اصل متن موجودہی نہ ہوتو حقیقت بالکل ہی مشکوک ہوجاتی ہے۔تاہم ان کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ قرآن مجیداوراناجیل مقدسہ ایک ہی سوتے سے پھوٹنے والے چشمے ہیں۔لیکن چونکہ اناجیل سمیت کل گزشتہ کتب آج اپنی اصلی حالت میں موجودنہیں ہیں اس لیے انسانوں کی ہدایت کے لیے ایک ایسی کتاب کی ضرورت ہے جواصل شکل میں موجودہواوروہ تحریف و تبدیلی اورکسی طرح کے انسانی تصرف سے پاک ہواوراس کی اصل زبان بھی زندہ ہو۔یہ کتاب صرف قرآن مجیدہے جس میں تمام نبیوں کے عقائدکامجموعہ اور کل کتب کے احکامات کاخلاصہ آج تک اپنی اصلی حالت میں موجودہے اورتاقیامت موجودرہے گا۔کل انسانیت خاص طورپراورہرہرفردعام طورپر اگرہدایت خداوندی پرچلناچاہتے ہیں اوردوزخ سے محفوظ رہ کر جنت میں داخل ہوناچاہتے ہیں توصرف  قرآن مجیداس کاضامن ہے۔