مساجد کے نظم و نسق: حکومتی اقدامات، مقامی معززین اور شفافیت کی نئی سمت
حکومتِ پنجاب نے صوبے میں مقامی معززین پر مشتمل مسجد مینجمنٹ کمیٹیوں کے قیام کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے مساجد کے انتظامی ڈھانچے کو عوامی اعتماد اور شفافیت کے نئے معیار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں مساجد و مدارس کی مکمل ڈیجیٹل میپنگ، ائمہ کرام کی رجسٹریشن اور وظائف کے نظام کو باضابطہ اور جدید خطوط پر استوار کرنے کے منصوبے کا جائزہ لیا گیا۔ یہ اقدام بلاشبہ ایک دیرینہ اور سنجیدہ ضرورت تھی، جس کا مقصد مذہبی اداروں کے نظم و نسق کو مؤثر اور شفاف بنانا ہے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ پنجاب بھر کے 20 ہزار 863 دینی مدارس اور 56 ہزار مساجد کا ریکارڈ مکمل کیا جا چکا ہے، ساتھ ہی مساجد کی جیو ٹیکنگ اور نمبرشماری کا عمل بھی پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ ائمہ کرام کے وظائف اور رجسٹریشن کے لیے ہر تحصیل میں خصوصی کاؤنٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، جبکہ فارم جمع کرانے کی سہولت دستی اور ڈیجیٹل دونوں صورتوں میں میسر ہوگی۔ یہ انتظامی جدت اور سہولت پسندی قابل تحسین ہے، خصوصاً اس تناظر میں کہ پہلی بار ائمہ کرام کو ایک منظم سرکاری نظام میں شامل کیا جا رہا ہے۔
مساجد کے نظم و نسق میں مقامی معززین کو شامل کرنا اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ مذہبی اداروں کے تحفظ اور امن و امان کی فضا برقرار رکھنے میں سماجی قیادت بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ تاہم ضروری ہے کہ ان کمیٹیوں کی تشکیل میں شفافیت، اہلیت اور غیر جانبداری کو یقینی بنایا جائے۔ کسی بھی قسم کی سیاسی یا مسلکی بنیادوں پر تشکیل نہ صرف اس نظام کے مقاصد کو متاثر کرے گی بلکہ معاشرے میں مزید تقسیم کا سبب بھی بن سکتی ہے۔
اس کے ساتھ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ریاستی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے خلاف کارروائی کے سلسلے میں 64 افراد کی گرفتاری اور مقدمات کا اندراج رپورٹ ہوا ہے۔ اگرچہ قانون کی عملداری ناگزیر ہے، لیکن اس حوالے سے انسانی حقوق، عدالتی عمل اور شفاف تحقیقات کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
حکومتِ پنجاب کے یہ اقدامات ایک جامع حکمت عملی کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کا مقصد مذہبی اداروں کو ریاستی اور سماجی نظم کے مضبوط ستون کے طور پر مستحکم کرنا ہے۔ ائمہ کرام کی خدمات کے اعتراف کے طور پر وظائف میں اضافہ اور سہولیات فراہم کرنا مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم اس پورے نظام کی کامیابی اس بات سے مشروط ہے کہ شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنایا جائے، اور مذہبی اداروں کو سیاسی مقاصد یا انتظامی جبر کا میدان نہ بنایا جائے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ یہ اصلاحات معاشرے میں اتحاد، مذہبی ہم آہنگی اور سماجی نظم کے فروغ کا ذریعہ بنیں گی اور پنجاب ایک ایسے ماڈل کے طور پر سامنے آئے گا جسے دیگر صوبے بھی اپنانے کا ارادہ کریں

