وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے کہا ہے کہ یونیورسٹی اپنے تحقیقی منصوبوں کی بدولت ملکی معیشت میں 30ارب سالانہ کا اضافہ کر سکتی ہے۔ اپنے دفتر میں یونیورسٹی سائنسدانوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کے اولین کپاس برآمدکرنے والے ملکوں میں شمار ہوتا تھا۔ تاہم حالیہ سالوں میں کپاس کی پیداوار میں مختلف وجوہات کی بنا پر کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے سائنسدانوں نے کپاس کے ایسے بیج تیار کیے ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں، زمین اور وائرس کے خلاف موثر ہیں۔ کپاس کی ان اقسام کی کاشت سے وطن عزیز سالانہ 20ملین کاٹن بیل تیار کرسکتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے کہا کہ پہلے ہی پنجاب کے 40فیصد زیر کاشت رقبے پر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کی تیار کردہ کپاس کی اقسام اُگائی جا رہی ہیں جس سے ٹیکسٹائل ایکسپورٹ میں 10بلین ڈالر کا اضافہ ہو رہا ہے۔ وائس چانسلر نے کہا کہ اسی طرح سویابین انٹرکراپنگ ٹیکنالوجی سے ملکی معیشت میں 10بلین ڈالر کا اضافہ کیا جا سکتا ہے جو ہمارے سائنسدانوں نے چینی ماہرین کے ساتھ ملکر متعارف کرائی ہے۔ اس تکنیک سے ایک ہی کھیت میں سویابین اور مکئی کاشت کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سویابین زمین کی زرخیزی میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستان پولٹری فیڈ کے لیے سالانہ 4بلین ڈالر سویابین کی درآمد پر خرچ کر رہا ہے۔ سویابین کی کاشت سے پولٹری فیڈ کی مقامی تیاری کے ساتھ ساتھ پاکستان سویابین کا تین بھی خود پیدا کر سکتا ہے جس کی درآمد پر سالانہ 6بلین ڈالر خرچ آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ وفاقی اور پنجاب حکومت کے تعاون سے اس طریقہ ء کاشت کو عام کسانوں کی دسترس میں دیا جا سکتا ہے جس سے یہ اجناس بھی حاصل ہوں گی اور زمین کی زرخیزی میں بھی اضافہ ہو گا۔ وائس چانسلر نے بتایا کہ ایک اور منصوبے کے ذریعہ بارش میں اضافہ کرکے چولستان کے 6.7ملین ایکٹر رقبے کو ایگرواکنامک زون میں بدلا جا سکتا ہے جس سے زراعت اور لائیو سٹاک کی مد میں ملکی معیشت کو 10بلین ڈالر کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چولستان کی زمین میں صدیوں پہلے ہاکڑہ دریا بہتا تھا جس کے باعث پہلے ہی یہاں کی زمین زرخیز ہے اوریہاں پر زراعت کے ساتھ ساتھ مویشیوں کے لیے چراگاہیں موجود ہیں جس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔