سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی اور عالمی ثالثی عدالت کا تاریخی فیصلہ
پانچ جولائی 2025
بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی نہ صرف ایک بین الاقوامی معاہدے کی سنگین پامالی ہے بلکہ یہ جنوبی ایشیا کے حساس خطے میں ایک ممکنہ آبی بحران کو جنم دینے کی دانستہ کوشش ہے۔ 1960ء میں عالمی بینک کی ثالثی کے تحت ہونے والا سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا ایک متفقہ، تحریری اور قانونی معاہدہ ہے، جس کے تحت تین مشرقی دریا (ستلج، بیاس، راوی) بھارت کے حصے میں دیے گئے جبکہ تین مغربی دریا (سندھ، چناب، جہلم) پاکستان کو تفویض کیے گئے۔ بھارت کو صرف محدود پیمانے پر ان مغربی دریاؤں کے پانی سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اس نے یکے بعد دیگرے کئی ایسے منصوبوں کا آغاز کیا جن سے پاکستان کے پانی کے حقوق کو سنگین خطرات لاحق ہوئے، جیسے کہ کشن گنگا اور رتلے ڈیم۔
پاکستان نے ان بھارتی اقدامات کو سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے نہ صرف سفارتی سطح پر مؤقف اپنایا بلکہ عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا۔ حال ہی میں عالمی ثالثی عدالت نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے بھارت کے یکطرفہ اقدامات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ عدالت نے واضح کیا کہ بھارت کو معاہدے کی شقوں کی مکمل پاسداری کرنی ہوگی اور مغربی دریاؤں پر ایسی کوئی تعمیرات نہیں کر سکتا جو پاکستان کے آبی مفادات کو متاثر کریں۔ یہ فیصلہ پاکستان کی بڑی قانونی اور سفارتی کامیابی ہے، جو اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ عالمی برادری اور انصاف کے بین الاقوامی ادارے آج بھی معاہدوں کے احترام کو اولین ترجیح دیتے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اس فیصلے کو بنیاد بنا کر بھارت پر مزید سفارتی دباؤ ڈالے تاکہ وہ مستقل طور پر سندھ طاس معاہدے کی پابندی کرے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں داخلی سطح پر بھی آبی تحفظ کے لیے فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے، جیسے کہ نئے آبی ذخائر کی تعمیر، جدید آبپاشی نظام کا نفاذ، اور پانی کے ضیاع کی روک تھام۔ اگر ہم نے بروقت فیصلے نہ کیے تو آنے والا وقت آبی قلت کے ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔