Advertisements

بہاولپور کب تک محروم رہے گا؟

Advertisements

اعزازات اور ایوارڈز کسی بھی قوم کے لیے محض تمغے نہیں ہوتے بلکہ یہ قربانی، بہادری اور سچائی کی سرکاری مہر ہوتے ہیں۔ یہ ان لمحوں کی یادگار ہیں جب افراد اپنی ذات سے بڑھ کر وطن کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ وہی قومیں ترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں جو اپنے ہیروز کو زندہ رکھتی ہیں، انہیں یاد کرتی ہیں اور ان کی قربانیوں کو آئندہ نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بناتی ہیں۔ 

ایوارڈ کسی بھی معاشرے میں محض ایک کاغذ یا دھات کا ٹکڑا نہیں ہوتے۔ یہ قوم کی طرف سے اُن لوگوں کے لئے اعترافِ خدمت کا اعلان ہیں جنہوں نے اپنی محنت، جرات اور دیانت کے ذریعے عوام کی خدمت کی ہو۔ ایوارڈ دراصل تاریخ کا وہ چراغ ہیں جو اندھیروں میں بھی روشنی پھیلاتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ سچائی، قربانی اور دیانت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ لیکن جب ایوارڈ دینے کے عمل میں ناانصافی ہو، میرٹ کو نظر انداز کر دیا جائے، اور ذاتی پسند ناپسند یا گروہی دباؤ غالب آ جائے، تو یہ چراغ روشنی کے بجائے اندھیرا پھیلاتے ہیں۔ بہاولپور آج اسی اندھیرے میں کھڑا ہے۔

Advertisements

بہاولپور، جو قربانی اور بہادری کی لازوال مثالوں سے بھرا ہوا ہے، آج بھی اعترافِ حقیقت سے محروم ہے۔  کیا یہ ناانصافی نہیں کہ اس خطے کے اُن سپوتوں کو بھی بھلا دیا گیا جنہوں نے بندوق نہیں بلکہ قلم اور کیمرے کو ہتھیار بنایا، جو محاذِ جنگ پر فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہے، اور دشمن کے پروپیگنڈے کو ناکام بنایا؟ یہ وہ صحافی تھے جنہوں نے قوم کو درست اور حقائق پر مبنی خبریں فراہم کیں۔ اگر فوج نے میدانِ جنگ میں فتح حاصل کی تو بہاولپور کے ان بہادر صحافیوں نے محاذِ ابلاغ پر دشمن کے وار پسپا کیے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ سپاہی گولیوں سے لڑے اور صحافی الفاظ اور سچائی سے۔

  کیا بہاولپور کے صحافیوں کی قربانیاں محض کاغذ کے اوراق پر رہ جائیں گی؟ کیا ان کا خونِ جگر اور ان کی بے خوف جدوجہد کبھی ایوارڈز کی صورت میں تسلیم نہ کی جا سکے گی؟ یہ سوال آج بھی ہمارے دلوں پر بوجھ ہے۔

موجودہ ایوارڈ کی تقسیم کا سب سے بڑا ظلم تو یہ ہے کہ ریجنل پولیس آفیسر کو بھی ایوارڈ دیا گیا، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو بھی ایوارڈ سے نوازا گیا، ڈپٹی کمشنر کو بھی اعزاز کا حقدار ٹھہرایا گیا، مگر کمشنر بہاولپور — جو اس پوری ٹیم کی سربراہ تھیں — انہیں نظر انداز کر دیا گیا۔ یہ صرف ایک شخصیت کی محرومی نہیں، یہ پورے بہاولپور کی توہین ہے۔ یہ پیغام ہے کہ یہاں میرٹ کی بجائے مصلحتیں چلتی ہیں، یہاں انصاف کی بجائے سیاست فیصلہ کرتی ہے۔

یہ معاملہ صرف کمشنر کی محرومی تک محدود نہیں بلکہ صنفی امتیاز کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ کیا ایک خاتون کو صرف اس لئے نظر انداز کر دیا گیا کہ وہ عورت ہیں؟ جبکہ وہی ٹیم کی اصل سربراہ تھیں؟ کیا ان کی قیادت، ان کی دن رات کی محنت اور ان کے فیصلے کسی سے کم تھے؟ ہرگز نہیں۔ یہ وہ سوچ ہے جو ہمارے معاشرے کو پیچھے دھکیلتی ہے۔ اگر عورت کامیابی حاصل کرے تو اسے تسلیم کرنے کے بجائے راستے روک دیے جاتے ہیں۔

یہ ایوارڈ تقسیم دراصل ایک علامت ہے — اس بات کی علامت کہ طاقتور مافیا اپنی مرضی سے فیصلے کرتا ہے۔ سچائی، میرٹ، قربانی اور دیانت کو کچل دیا جاتا ہے۔ جو حق دار ہے وہ محروم رہتا ہے، اور جو خوشامد یا تعلقات رکھتا ہے وہ سرخرو ہوتا ہے۔ بہاولپور کے لوگ سوال کر رہے ہیں: کیا یہ وہی انصاف ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا؟ کیا یہ وہی میرٹ ہے جس کا چرچا ہوتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہاں سچائی ہار گئی اور مافیا جیت گیا۔

 بہاولپور کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا — کبھی ترقیاتی منصوبوں میں، کبھی فنڈز میں، کبھی اداروں کے قیام میں، اور اب ایوارڈز میں بھی۔ اگر کمشنر جیسے ایماندار اور محنتی افسر کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے، اگر بہاولپور کے صحافیوں کو فراموش کیا جا سکتا ہے، تو پھر اور کس کو امید ہو سکتی ہے کہ اس شہر کے لئے انصاف ہو گا؟

ایوارڈ بانٹنے والے صاحبانِ اختیار کو سوچنا ہو گا کہ یہ اعزازات صرف خوشامدیوں کے لئے نہیں، بلکہ اُن لوگوں کے لئے ہیں جنہوں نے حقیقتاً خدمت کی ہے۔ بہاولپور کے صحافی اور کمشنر دونوں اس کے مستحق تھے۔ یہ صرف انفرادی محرومی نہیں بلکہ اجتماعی توہین ہے۔ اگر اس روش کو نہ بدلا گیا، تو تاریخ ایک دن یہی لکھے گی کہ "بہاولپور محروم رہا کیونکہ سچائی کو دبایا گیا اور مافیا کو جتوایا گیا۔”

۔  تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے  اپنے ہیروز کو فراموش کر دیا، وہ ہمیشہ تاریخ کے اندھیروں میں کھو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار دہراتے ہیں: "جو قوم اپنے ہیروز کو بھلا دیتی ہے اس کا خمیازہ آنے والی نسل بھگتتی ہے۔”

کیا یہ میرٹ ہے؟ یا یہ اُس "مافیا” کی جیت ہے جو ہمیشہ چاہتا ہے کہ سچ دب جائے اور طاقتور کا نام ہی زندہ رہے

یہ سوال اب ہر دل کی آواز بن چکا ہے۔ بہاولپور کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا — کبھی ترقیاتی منصوبوں میں، کبھی فنڈز میں، کبھی اداروں کے قیام میں، اور اب ایوارڈز میں بھی۔ اگر کمشنر جیسے ایماندار اور محنتی افسر کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے، اگر بہاولپور کے صحافیوں کو فراموش کیا جا سکتا ہے، تو پھر اور کس کو امید ہو سکتی ہے کہ اس شہر کے لئے انصاف ہو گا؟

ایوارڈ بانٹنے والے صاحبانِ اختیار کو سوچنا ہو گا کہ یہ اعزازات صرف خوشامدیوں کے لئے نہیں، بلکہ اُن لوگوں کے لئے ہیں جنہوں نے حقیقتاً خدمت کی ہے۔ بہاولپور کے صحافی اور کمشنر دونوں اس کے مستحق تھے۔ یہ صرف انفرادی محرومی نہیں بلکہ اجتماعی توہین ہے۔ اگر اس روش کو نہ بدلا گیا، تو تاریخ ایک دن یہی لکھے گی کہ "بہاولپور محروم رہا کیونکہ سچائی کو دبایا گیا اور مافیا کو جتوایا گیا۔”

۔  تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے  اپنے ہیروز کو فراموش کر دیا، وہ ہمیشہ تاریخ کے اندھیروں میں کھو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار دہراتے ہیں: "جو قوم اپنے ہیروز کو بھلا دیتی ہے اس کا خمیازہ آنے والی نسل بھگتتی ہے۔”

  حروف محسن —– بقاءالمحسن