پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ — مہنگائی کا نیا طوفان
انیس جولائی 2025
وفاقی حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ عام آدمی کے لیے ایک نئے معاشی زلزلے سے کم نہیں۔ خزانہ ڈویژن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 5 روپے 36 پیسے اور ہائی اسپیڈ ڈیزل میں 11 روپے 37 پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے، جس کا اطلاق 16 جولائی 2025 سے ہو چکا ہے۔ حکومت نے اگرچہ اوگرا اور متعلقہ وزارتوں کی سفارشات کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا، لیکن اس کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر وہ طبقہ ہو گا جو پہلے ہی مہنگائی، بےروزگاری اور معاشی دباؤ کا شکار ہے۔ یہ اضافہ محض اعداد و شمار کا مسئلہ نہیں بلکہ عام شہری کی زندگی، روزگار، خوراک، اور سفر کے بنیادی حقوق پر براہ راست حملہ ہے۔ جہاں پیٹرول کی قیمت 272 روپے 15 پیسے اور ڈیزل کی 284 روپے 35 پیسے ہو گئی ہے، وہیں لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمت میں معمولی کمی عوامی ریلیف کے دعوے کو مذاق بنا دیتی ہے۔
جنوبی پنجاب بالخصوص احمدپور شرقیہ، یزمان، حاصل پور، لیاقت پور، خانقاہ شریف اور صادق آباد جیسے علاقوں میں عوام کی ایک بڑی تعداد زراعت اور مزدوری پر انحصار کرتی ہے۔ ان علاقوں میں ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ براہِ راست زرعی سرگرمیوں کو متاثر کرے گا۔ کاشتکار پہلے ہی کھاد، بیج، اور زرعی ادویات کی مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں، اب ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے سے ٹیوب ویل چلانا، ٹریکٹر کا ایندھن بھرانا اور اجناس کی منڈیوں تک ترسیل مزید مہنگی ہو جائے گی۔ مزید برآں، احمدپور شرقیہ جیسے نیم شہری اور دیہی علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ محدود اور مہنگی ہے۔ اب اگر رکشہ، چنگچی یا وین کا کرایہ مزید بڑھا تو مزدور طبقہ، اسکول و کالج کے طلبہ اور کم آمدنی والے ملازمین سفر سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ مہنگائی کا نیا طوفان پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ صرف ایندھن تک محدود نہیں رہتا، بلکہ یہ ایک زنجیروار مہنگائی کو جنم دیتا ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء، سبزیاں، آٹا، چینی، گھی، اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی ترسیل مہنگی ہو جاتی ہے۔ مارکیٹوں میں مہنگائی کی نئی لہر پیدا ہوتی ہے جس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا۔
احمدپور شرقیہ میں چھوٹے تاجر، سبزی فروش، رکشہ ڈرائیور، کسان، مزدور، اور تنخواہ دار طبقہ پہلے ہی مالی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ اس نئے بوجھ نے اُن کی زندگی مزید دشوار بنا دی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ وفاقی حکومت عوام کو ریلیف دینے کے بجائے اُن کے لیے زندہ رہنا بھی مشکل بنا رہی ہے۔ حکومتی مؤقف اور سوالات اگرچہ حکومت نے اس فیصلے کو بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں اور روپے کی قدر میں کمی سے جوڑا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ عام شہری کو ان عالمی مالیاتی اتار چڑھاؤ کا خمیازہ کیوں بھگتنا پڑتا ہے؟ کیا حکومت کے پاس متبادل توانائی کے ذرائع، مقامی ریفائننگ پالیسی، یا سبسڈی اسکیمز کا کوئی واضح منصوبہ موجود ہے؟ کیا جنوبی پنجاب جیسے محروم خطوں کے لیے کوئی خصوصی پیکیج یا رعایت رکھی گئی ہے؟ روزنامہ نوائے احمدپور شرقیہ حکومت وقت سے مطالبہ کرتا ہے کہ جنوبی پنجاب کے زرعی علاقوں کے لیے ڈیزل پر سبسڈی دی جائے, پبلک ٹرانسپورٹ اور زرعی مشینری کو رعایتی نرخوں پر ایندھن فراہم کیا جائے, غریب عوام کے لیے مہنگائی سے بچاؤ کی مؤثر اسکیمیں متعارف کرائی جائیں, قیمتوں کے تعین کا عمل شفاف بنایا جائے تاکہ عوام کو اصل حقائق معلوم ہوں۔, حکومت پندرہ روزہ قیمتوں کی پالیسی پر نظرثانی کرے اور کم از کم تین ماہ کے لیے قیمتیں منجمد کرے تاکہ عوام کو وقتی ریلیف مل سکے۔ آج کا سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ ایک عام پاکستانی کب تک عالمی منڈی کے نام پر مقامی بوجھ اٹھاتا رہے گا؟ اور کیا ریاست اپنی ذمہ داری کو صرف اعداد و شمار کی حد تک محدود رکھنا چاہتی ہے؟ اگر حکومت نے فوری ریلیف نہ دیا تو یہ اضافہ ایک خطرناک عوامی ردِعمل کو جنم دے سکتا ہے، جو نہ صرف سیاسی سطح پر نقصان دہ ہو گا بلکہ معاشی طور پر بھی ملک کو پیچھے دھکیل سکتا ہے