پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ — کمر توڑ مہنگائی کا نیا باب
تین جولائی 2025ء
ملک میں ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا ہے، جس سے عوامی حلقوں میں شدید بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ پہلے ہی مہنگائی کے طوفان میں گھرے ہوئے شہریوں کے لیے یہ فیصلہ گویا زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ بالخصوص چھوٹے شہروں، دیہی علاقوں، کسانوں اور کم آمدنی والے طبقات کے لیے یہ اضافہ ناقابلِ برداشت بوجھ بن چکا ہے۔
پٹرول و ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ہی نہ صرف ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جائیں گے، بلکہ اشیائے خوردونوش، سبزیاں، پھل، آٹا، چینی، دالیں، دودھ اور دیگر بنیادی ضروریات کی اشیاء بھی مہنگی ہو جائیں گی۔ احمد پور شرقیہ، یزمان، چنی گوٹھ، ترنڈہ محمد پناہ جیسے علاقوں میں جہاں عوام کی اکثریت پہلے ہی خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہی ہے، وہاں یہ اضافہ ایک سنگین معاشی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
حکومتی مؤقف ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے اور زرمبادلہ کے بحران کے باعث یہ فیصلہ ناگزیر تھا، مگر سوال یہ ہے کہ غریب کو ہر بار قربانی کا بکرا کیوں بنایا جاتا ہے؟ کیا حکمران طبقات، مراعات یافتہ افراد اور بڑی صنعتوں سے بھی یہی تقاضا کیا جاتا ہے؟ کیا ٹیکس نظام اتنا مضبوط نہیں کہ وہ امیروں سے ان کا جائز حصہ وصول کر سکے؟
روزنامہ نوائے احمد پور شرقیہ حکومت وقت سے مطالبہ کرتا ہے کہ:
- پٹرول پر کم از کم دیہی اور زرعی علاقوں کے لیے سبسڈی فراہم کی جائے۔
- بنیادی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
- پبلک ٹرانسپورٹ کرایوں میں ہوشربا اضافے کو روکا جائے۔
- ذخیرہ اندوزوں، ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
- دیہی عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی مستقل ریلیف پالیسی ترتیب دی جائے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مہنگائی کا ہر وار براہ راست عوام الناس پر ہوتا ہے۔ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو نہ صرف معیشت مزید تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی بلکہ عوامی بے چینی ایک بڑے ردعمل کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر عملی اور دیرپا اقدامات کرے، ورنہ پٹرول کی یہ آگ صرف انجن نہیں، عوامی امیدوں اور صبر کو بھی جلا دے گی۔