مفسر قرآن حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمتہ اللہ علیہ
تحریر: غازی امان اللہ خاں
بڑی بڑی مونچھوں والا یہ مولوی وقت کا مشہور مفسر قرآن حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمتہ اللہ علیہ ہے۔
ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے منصب سنبھالا اور ہندو قوم کو تعلیم کے اس میدان تک پہنچایا کہ آج دنیاء کی بڑی مائیکروسوفٹ کمپنیاں ان پر رشک کرتی ہیں کینڈا سے لیکر امریکی ایوانوں تک انڈین نیشنیلٹی کے لوگ پہنچ چکے ہیں۔ اسکو ماڈرن انڈیا کا معمار کہا جاتا ہے۔
یہ کون تھا آیئے تاریخ سے پوچھتے ہیں۔
یہ وہ شخص تھا جس کی ذات میں عرب و عجم کا خون شامل تھا ۔ جب بولتا تھا تو برصغیر کا سب سے بڑا خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاری رح ہمہ تن گوش ہو جاتا تھا۔ جب خاموش ہوتا تھا تو گاندھی ،نہرو اور را جندرا پرشاد جیسی تاریخ ساز شخصیات کی سانسیں رک جاتی تھیں۔
مجھے ابتدائی دور میں ان کے شہرہ آفاق قلم سے ترجمہ شدہ کتاب ‘ مسلمان عورت ‘ پڑھنے کا موقع ملا ۔
عربی سے اردو میں ایسا شاہکار ترجمہ کہ جس کی مثال ملنا مشکل ھے۔ اصل کتاب مصری مفکر علامہ فرید وجدی نے ‘ المرات المسلمہ’ کے نام سے لکھی تھی جو کہ انہوں نے مسلم دنیا کے پہلے آزادی نسواں کے مصری علمبردار قاسم آمین بک کی معروف کتاب ‘ تحریر المرآت ‘ ( عورت کی آزادی ) کے جواب میں لکھی تھی۔
مولانا آزاد ایک ہمہ جہت versatile شخصیت تھے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کبھی اپنے مخالف کو سخت الفاظ میں جواب نہیں دیتے تھے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی رح نے ان کے اوصاف میں ان کی اس خوبی کا خاص طور پر ذکر فرمایا ھے ، مولانا ابوالکلام آزاد رح کی شان میں یہ شعر لکھا جانا مناسب لگتا ھے :
ھم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
ھم سا بھی تیرے شہر میں کوئی اور کہاں ھے
آغاء شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ جونہی مولانا کی رحلت کا اعلان ہوا سینکڑوں لوگوں کا سنّاٹا چیخ و پکار سے تھرّا گیا ۔ دن چڑھے لگ بھگ دو لاکھ انسان ، آزاد کی کوٹھی کے باہر جمع ہو گئے۔ تمام ہندوستان میں سرکاری و غیر سرکاری عمارتوں کے پرچم سرنگوں کر دیئے گئے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ماتمی ہڑتال ہو گئ ،دہلی میں ہُو کا عالم تھا حتی کہ بینکوں نے بھی چھٹی کر دی ایک ہی شخص تھا جس کیلئے سب کے آنکھوں میں آنسوں تھے۔
پنڈت جواہر لال نہرو کی بے چینی کا یہ حال تھا کہ ایک رضاکار کی طرح عوامی ہجوم میں گھس گئے۔
جنازہ اٹھا ، پنڈت نہرو ، مسٹر دھیبر ، صدر کانگرس ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، جنرل شاہ نواز ، پروفیسر ہمایوں کبیر ، بخشی غلام محمد اور مولانا کے ایک عزیز جنازہ گاڑی میں سوار تھے ۔ ان کے پیچھے صدر جمہوریہ ہندوستان، نائب صدر اور مرکزی و صوبائی وزراء کی گاڑیوں کی لمبی قطار تھی ،
ہندوستانی فوج کے تینوں چیفس جنازے کے دائیں بائیں تھے ۔ دریا گنج سے جامع مسجد تک ایک میل کا راستہ پھولوں سے اَٹ گیا جب میت کو پلنگ پر ڈال دیا گیا سب سے پہلے صدر جمہوریہ نے پھول چڑھائے ،پھر وزیراعظم نے اس کے بعد غیر ملکی سفراء نے ، کئ ہزار برقعہ پوش عورتیں مولانا کی میت دیکھ کر دھاڑیں مار کر رو رہی تھیں۔ ہندو دیویاں اور کنیائیں مولانا کی نعش کو ہاتھ باندھ کر پرنام کرتی رہیں۔
مولانا احمد سعید دھلوی نے دو بج کر پچاس منٹ پر نماز جنازہ پڑھائی۔
قصہ مختصر: تاریخ انسانوں کو انکے کنٹری بیوشن کے حوالے سے یاد رکھتی ہے۔ کتنے انسانوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی آئی اور انسانیت کو کیا فوائد دیے۔ انسانیت کو کتنی آسانیاں پہنچائیں، تاریخ اس پہ اپنا فیصلہ دیتی ہے۔ تاریخ کا حافظہ بڑا بے رحم ہے یہ سب کو یاد رکھتی ہے۔
کاش
پاکستان میں کوئی ایک شخصیت ایسی ہوتی جو آزاد جیسا رول ماڈل بن کر اس قوم کی ڈگمگاتی ناؤ کو پار لگاتی!
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ!