حضرت مخدوم سید جہانیاں جہان گشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ

تحقیق و تحریر: ڈاکٹر محمد الطاف ڈاھر جلالوی
انسان کی تخلیق رب العزت جلال کریم کی سب سے بہترین حسین و جمیل کاری گری ہے۔اللہ پاک نے ازل سے اپنی محبوب ترین مخلوق انسان کی بھلائی و رشدوہدایت کے آپنے افضل و عظیم الشان انبیاء و رسل کرام علیہم السلام اجمعین بھیجے ہیں۔آخری محبوب سرور کونین نبی خاتم الرسل حضرت محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام کے بعد نبوت کا خوبصورت سلسلہ مکمل ہوا۔پھر دین اسلام کی اشاعت کو اہل بیت المقدس وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد بزرگان دین اولیاء اللہ کرام سے پیغام شریعت محمدیہ وفلسفہ احترام آدمیت جاری ہے اور تا قیامت جاری رہےگا۔فلسفہ تصوف دراصل انسانیت کی بقاء،سلامتی، محبت،اتحاد ویکجہتی،امن و رواداری اور برداشت کا خوبصورت اظہار ہے۔مادیت پرستی کی ظاہری آنکھ کے بند ہوجانے کے بعد ولایت روحانی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔سائنسی علوم دماغ کے مشاہدے کے محتاج ہیں جب کہ تصوف سلسلہ روحانیت دل کے مرکز تجلیات کے تابع ہے۔دل کا سکون واطمینان صرف ذکر اللہ میں پوشیدہ ہے۔اس راز کو صرف نیک برگزیدہ کامل حقیقی ولی اللہ ہی کھول سکتا ہے۔
علامہ مفتی محمد سراج احمد سعیدی قادری رضوی آپنی تصنیف ” تاریخ اوچ متبرکہ” کے صفحہ نمر 249 پر لکھتے ہیں کہ "سید السادات حضرت سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا میں نے چند مشائخ سے خرقہ پہنا ہے۔(یعنی خلافت حاصل کی ہے) بعض سلسلے دس، بارہ واسطوں سے حضور اکرم مصطفٰی خاتم الرسل صلی اللہ علیہ والہ والسلام تک پہنچتے ہیں۔لیکن میں نےایک ایسا خرقہ پہنا ہے کہ درمیان میرے اور حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ والسلام کے ایک واسطہ ہے وہ خرقہ حضرت خضر علیہ السلام کا ہے۔انہوں نےحضرت محمد مصطفٰی خاتم الرسل صلی اللہ علیہ والہ والسلام سے پہنا ہے۔انشاءاللہ تعالی میں بعض یاروں کو پہناوں گا”۔سلسلہ سہروردیہ،سلسلہ قادریہ،سلسلہ چشتیہ،سلسلہ اویسیہ،سلسلہ نقشبدیہ ان سلسلوں کو ولایت حضرت مولا علی علیہ السلام کے در سے ملی ہے۔برصغیر پاک وہند جنوبی ایشیا میں خصوصی سادات بخاریہ کے جد امجد غوث الاغواث شہنشاہ تجلیات وفیضان حضرت سید جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے امام العارفین و ہادی رہبر عالم و سلطان قطب الاقطاب مخدوم حضرت سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی پوری حیات طیبہ دین حق کی سربلندی کے لیے عملی مثالی نمونہ ہے۔شیخ الاسلام حضور حضرت سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت بخاری رحمتہ کا اصل نام سید جلال الدین حسین بخاری رحمتہ اللہ علیہ، کنیت ابو عبداللہ، القابات میں مخدوم جہانیاں جہانگشت،سیاح عالم، امام العارفین بہت مشہور ہیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کا نام بھی دادا جان حضور شہنشاہ تجلیات و جلال گنج اعظم و منبع عرفان وبرکات حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے نام مبارک پر رکھا گیا۔سلسلہ نسب اس طرح ہے کہ حضرت سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ بن حضرت سید سلطان احمد کبیر بخاری بن حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری بن حضرت سید علی ابو الموید بن حضرت سید جعفر بن حضرت سید محمد بن حضرت سید محمود بن سید احمد بن سید عبداللہ بن سید علی بن جعفر بن علی نقی بن سید محمد تقی بن سید امام علی رضا بن سید امام موسی کاظم بن سید امام جعفر صادق بن سید امام محمد باقر بن سید امام سجاد زین العابدین بن سید امام حسین علیہ السلام بن امام الائمہ حضرت سید مولا علی ع ( رضوان اللہ علیہم اجمعین)آپ رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہ نسب سترہ واسطوں سے حضرت سید الشہداء امام عالی مقام حسین علیہ السلام تک منتہی ہوتاہے۔آپ کا تعلق سادات بخاریہ برصغیر پاک و ھند موجودہ سرائیکی وسیب اوچ شریف مدینہ السادات تحصیل احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور پاکستان سے ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 14 شعبان المعظم 707ھ بمطابق 9فروری 1308ء بروز جمعرات موجودہ جگہ پاکستان سابق سرائیکی ریاست بہاولپور، تحصیل احمد پور شرقیہ اوچ شریف ولی کامل ہستی حضور حضرت سلطان سید احمد کبیر بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے گھر پر ہوئی۔حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی جبین مبارک سے سعادت مندی کے ساتھ رشدوہدایت کے آثار واضح تھے۔حضرت شاہ سمنان جہانگیر اشرف سمنانی رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی پیدائش کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد بزرگوار حضرت سید سلطان احمد کبیر بخاری رحمتہ اللہ علیہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو حضرت شیخ جمال خنداں رو رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں لے گئے۔اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو ان کے قدموں میں ڈال دیا۔اس موقع پر حضرت شیخ جمال خنداں رو رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا؛ ” اس فرزند کی عظمت و بزرگی دنیا میں ایسی ہوگی جیسے آج کی شب(شب برات) کی ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم وتربیت اوچ شریف کے روحانی ماحول میں حاصل کی۔علامہ قاضی بہاؤالدین آپ رحمتہ اللہ علیہ کے استاد محترم تھے۔ان کے انتقال کے بعد حصول علم وادب ومعرفت کے لیے اوچ شریف سےملتان شریف تشریف لائے۔یہاں شیخ موسی اور مولانا مجد الدین جیسے نہایت مخلص و شفیق استاد ملے۔یہاں ہدایہ اور بزودی جلد ختم کی۔بعد ازاں مدینہ منورہ جاکر مزید تعلیم وتربیت و معرفت حاصل کی۔ملتان میں آپ رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ سہروردیہ کے بانی برصغیر پاک و ھند حضرت خواجہ بہاوالحق ذکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے پوتے حضرت شیخ رکن الدین عالم ملتانی ابوالفتح رحمتہ اللہ علیہ کی اجازت سے مدرسے میں رہتے تھے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ مدینہ منورہ شریف سے فیض باطنی علوم پاکر مکہ مکرمہ تشریف لائے۔یہاں کلام الہی قرآن مجید کی ساتوں قراتیں سیکھیں۔مکہ مکرمہ میں بڑے عالم دین میں حضرت شیخ مکہ امام عبداللہ یافعی اور شیخ الاسلام عبداللہ مطری علیہم الرحمہ سے مختلف کتابیں اور صحاح ستہ پڑھیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ آپنے اساتذہ کرام سے تہجد کے وقت عوارف المعارف اور حدیث مبارکہ کا درس لیتے۔نسخہ عوارف معارف بانی سہروردیہ سلسلہ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کے مطالعے میں بھی رہ چکا تھا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کو وہ نسخہ حضرت امام عبداللہ یافعی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاتھوں پہنچا۔جس کو آپ رحمتہ اللہ علیہ بہت عزیز رکھتے تھے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے آپنے والد بزرگوار حضرت سلطان سید احمد کبیر بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے دست حق مبارک پر بیعت و خلافت فرمائی۔مسند خلافت دادا جان شہنشاہ تجلیات وفیضان جلال گنج اعظم و منبع عرفان وبرکات حضور حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی روشن ولایت اور خاندانی کمالات سے مشرف ہوئے۔آپنے چاچا جان حضرت سید محمد غوث رحمتہ اللہ علیہ سے بھی خرقہ خلافت پہنا۔والد بزرگوار حضرت سید سلطان احمد کبیر بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے وصال مبارک کے حضرت شیخ الاسلام حضور شاہ رکن الدین عالم ابو الفتح ملتانی رحمتہ اللہ علیہ کے دست حق پر بیعت ہوئے۔سلسلہ سہروردیہ میں خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔زیادہ تر آپ رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ سہروردیہ میں بیعت فرماتے تھے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ خود فرماتے تھے کہ میں چودہ عظیم الشان روحانی ہستیوں سے خرقہ پہنا اور اجازتیں حاصل کیں۔سلسلہ چشتیہ کی مشہور ہستی بانی برصغیر پاک و ھند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کےخلیفہ مجاز حضرت خواجہ سید بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز حضرت خواجہ فرید الدین مسعودگنج شکر ملتانی رحمتہ اللہ علیہ پاک پتن شریف سرکار کے خلیفہ مجاز حضور حضرت سید خواجہ نظام الدین اولیاء بخاری رحمتہ اللہ علیہ دہلی/انڈیا کا خرقہ خلافت خواب میں پہنا جب بیدار ہوئے تو سر مبارک پر پایا۔مشہور روحانی شخصیات میں حضرت شیخ قوام الدین رحمتہ اللہ علیہ،حضرت قطب الدین منور رحمتہ اللہ علیہ، حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ، حضرت شیخ مکہ امام عبداللہ یافعی رحمتہ اللہ علیہ،شیخ مدینہ منورہ شریف حضرت عبداللہ المطری رح، قطب عدن حضرت فقیمہ بصال رح، حضرت شیخ اسحاق گازرونی رح،حضرت شیخ امین الدین رح، حضرت شیخ امام الدین رح،حضرت شیخ حمید الدین رح،حضرت شیخ شرف الدین محمود شاہ رح،حضرت سید احمد رفاعی رح،حضرت شیخ نجم الدین صنعانی رح،حضرت شیخ نجم الدین کبری رح، حضرت خضر رح،حضرت احد الدین حسنی، حضرت شیخ نورالدین رحمتہ اللہ علیہم اجمعین سے بھی خرقہ خلافت پہنا اور اجازتیں لیں۔
والئی اقلیم ولایت،حامی سنت،ماحی بدعت، غریق بحر محبت، مقتدائے اہل مودت، شمع قصر ہدایت، سیاح عالم، امام العارفین، کشف لوح و قلم حضور حضرت سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ آپنے وقت کے عالم متبحر، صوفی اعظم، دین مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام و اہل بیت المقدس وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے عظیم داعی تھے۔شریعت محمدیہ و فلسفہ شہادت حسین جلال علیہ السلام کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلایا۔خدمت دین ان کو وراثت میں ملی۔اسلام کے حقیقی وارث ہیں۔نانا جان حضرت سیدنا خاتم الرسل محمد مصطفٰی صل اللہ علیہ والہ والسلام کی شریعت و دادا جان حضرت مولا علی علیہ السلام کا فلسفہ کائنات و ادب آدمیت کو ہر عام و خاص تک پہنچایا۔سرائیکی وسیب کے کئی قبائل کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔رجپوت قبیلہ منج کی آپس میں لڑائی ختم کرائی اور دین اسلام کی دولت سے مالا مال کیا۔سرائیکی ریاست بہاولپور تحصیل احمد پور شرقیہ اوچ شریف میں فیض عام ہے۔گجرات،کاٹھیاواڑ ریاست کے نواب بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دست حق پر اسلام قبول فرمایا۔سلطان محمد تغلق شاہ کے عہد میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کو شیخ الاسلام منصب عطاء ہوا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے کثیر تعداد میں دینی مدارس و مساجد اور خانگاہیں تعمیر کرائیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ جید عالم دین، کہنہ مشق مدرس تھے۔قرآن و حدیث،تفسیر و فقہ،تصوف اور سیرو سیاح سے ہمیشہ خصوصی لگاو رہا۔مشکوہ شرقیہ کا درس مشہور عام تھا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ علم و عرفان وبرکات سے مزین صوفی بزرگ ہیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مرید حضرت علاو الدین علی بن سعد حسینی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو 188 علوم پر دسترس حاصل تھی۔ایک مشہور زبانی روایت ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو 55 سے زائد دنیا کی زبانوں پر مکمل عبور تھا۔سرائیکی و سندھی مادری زبانوں میں تبلیغ اسلام زیادہ فرماتے۔مادرزاد ولی کامل تھے۔لڑکپن سے آثار بزرگی کے جلوہ نما تھے۔روایت کےمطابق ان کی سات برس کی عمر تھی کہ ان کے والدین بزرگوار ان کو حضرت شیخ جمال الدین خنداں رو رحمتہ اللہ علیہ کے روبرو لے گئے۔اس وقت ان کے پاس ایک طباق کھجوروں کا بھرا رکھا تھا، فرمایا کہ حاضرین کو تقسیم کر دو۔ حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا حصہ معہ گٹھلیوں کے کھانا شروع کیا۔حضرت شیخ جمال الدین خنداں رو رحمتہ اللہ علیہ یہ دیکھ کر تبسم فرمایا کہ حضرت سید مخدوم جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ مع گٹھلیوں کے کیوں کھا رہے ہیں؟ اس پر حضرت سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا آپ رحمتہ اللہ علیہ کی طرف عطاکردہ نعمت خداوندی میرے لئے باعث برکت و رحمت ہے۔اس پر حضرت شیخ جمال الدین خنداں رو رحمتہ اللہ علیہ نے خصوصی دعائیں فرمائیں اور باطنی نعمتیں عطا کیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ سلوک کی مزید منازل طے کرنے کے لیے حضرت مخدوم نصیر الدین چراغ دہلی رحمتہ اللہ علیہ کے مرید ہو کر چند دن ان کی خدمت میں رہے اور فیضان چشتیہ حاصل کیا۔
حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانہاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ چودہ خانوادوں کے خلیفہ ہیں اور تمام اولیائے وقت سے ملے ہیں اور حضرت غوث پاکؒ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے نہایت عقیدت تھی۔حضرت سید اشرف جہانگیری رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ "جس قدر خوارق اور کرامتیں حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے صادر ہوئیں،اولیائے متاخرین میں سے کسی ایک کو بھی حاصل نہیں ہوئیں”۔چنانچہ جس روز میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اسی روز اطوار قطبیت و غوثیت سے مشرف ہوا۔حضرت شیخ علا ؤالدین چشتیؒ قطب بنگالی رحمتہ اللہ علیہ نے انتقال کے وقت فرمایا تھا کہ میرے جنازہ کی نماز حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ پڑھائیں گے اور کوئی نہ پڑھائے۔ یہ سن کر تمام مرید حیران تھے کہ حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ اوچ شریف میں ہیں،کیسے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے جنازہ کی نماز کے وقت حاضر ہوں گے۔چنانچہ جب ان کا انتقال ہوا تو لوگوں نے حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ کو وہاں حاضر دیکھا اور پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ہی جنازہ کی نماز پڑھائی اور چند روز رہ کر حضرت نور قطب عالم رحمتہ اللہ علیہ کو بھی بیعت کیا۔ایک روایت کےمطابق ایک روز حضرت مخدوم کشف اسرار لوح و قلم حضرت سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ اپنی خانگاہ میں بیٹھے تھے کہ یکایک گھاس کی گٹھڑی میں آگ لگی اور اس میں سے شعلہ اٹھا۔حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ایک چٹکی خاک کی اٹھا کر یا شیخ عبدالقادر محی الدین جیلانی رحمتہ اللہ علیہ با آواز بلند پڑھ کر اس طرف پھینکی معاً آگ بجھ گئی۔ ایک روز خان جہاں مرزا وزیر سلطان فیروز شاہ حضرت جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں آیا۔اس نے ایک منشی لڑکے کو قید کیا تھا۔ اس لڑکے نے آپ کی طرف توجہ کی۔ آپ نے نور باطن سے معلوم فرما کر وزیر سے فرمایا کہ اس مظلوم کو چھوڑ دے۔ اس میں تیری خیر ہو گی۔وزیر نے بموجب حکم عالی رہا کیا۔ اخبار الاولیاء سے نقل ہے کہ شب عید کو حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ روضہ شیخ الاسلام حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی رحمتہ اللہ علیہ الدین پر جا کر مستدعی عیدی کے ہوئے، مزار سے آواز آئی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی عیدی یہی ہے کہ خداوند تعالیٰ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو مخدوم جہانیاں کیا۔ بعد اس کے حضرت شیخ صدر الدین عارف رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر عیدی کی التجا کی۔ وہاں سے بھی جواب بالصواب پایا۔خزینہ جلالی میں لکھا ہے کہ ایک بار شیخ حضرت شاہ رکن عالم ابوالفتح ملتانی رحمتہ اللہ علیہ زینہ پر سے اترتے ہیں۔ حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے دوڑ کر اپنے آپ کو زینہ پر ڈالا۔ اس لئے کہ قدم پیر کا سینہ پر پڑے۔یہ دیکھ کرحضرت شیخ شاہ رکن الدین عالم ملتانی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا "یاسید محترم آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مرتبہ ولایت کو پہنچ چکا ہے، آپ رحمتہ اللہ علیہ مخدوم جہانیاں ہو گئے اور اپنے ہاتھ سے اٹھا کر سینے سے لگایا اور بہت باطنی نعمتیں عطا کیں۔اس روز سے مخاطب بہ خطاب "مخدوم جہانیاں ” ہوئے۔ چونکہ سیاحت بہت کی تھی اس لئے ‘‘جہاں گشت’’ بھی کہلائے۔
ایک بار حضرت سید مخدوم جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ جامع مسجد اوچ میں مع چند علماء درویشوں کے معتکف تھے،سومرہ حاکم اوچ حضرت کی زیارت کے لئے آیا۔حضرت کے گرد ہجوم درویشوں کا دیکھ کر کئی درویشوں کو جھڑک کر مسجد سے باہر نکالا۔ حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ نے یہ حال دیکھ کر جلال میں فرمایا "کہ اے بدبخت تو دیوانہ ہوا ہے کہ درویشوں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ یہ فرماتے ہی حاکم دیوانہ ہو گیا۔ کپڑے پھاڑ کر مسجد سے باہر نکل کر لوگوں کو پتھر مارتا ہوا باہر پھرنے لگا۔آخر بمشکل اس کو پابہ زنجیر کر کے اس کی بوڑھی والدہ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئی۔اور اس کی معافی چاہی۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ازراہ رحم فرمایا کہ اس کو غسل دو اور نئے کپڑے پہنا ؤ اور زیارت مزار حضرت شیخ جمال الدین خنداں رو رحمتہ اللہ علیہ کے میرے پاس لا ؤ۔پس بعد زیارت مزار وہ حضرت کے پاس آتے ہی اچھا ہو گیا اور مرید ہو کر اصلاح حق سےمشرف ہوا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ غیر شرعی رسوم سے بہت پرہیز فرمایا کرتے۔ یہاں تک کہ غیر شرعی تعظیم تک پسند نہ تھی۔اگر کوئی مرید عزت کی خاطر
پاؤں چومنے کی کوشش کرتا تو چومنے نہ دیتے تھے، نہ ہی کسی مرید کو اجازت تھی کہ پاؤں پر سر رکھے۔ ایک مرید نے آپ کی تعریف میں نظم لکھی اور اس میں انہیں ‘‘سید السادات’’ کہا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے سید السادات نہ کہو بلکہ گدائے عالم کہو۔کسر نفسی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ خواجہ شرف الدین احمد منیریؒ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس کفش بھیجی،جس کا مطلب یہ تھا کہ میں آپ کا کفش پا ہوں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس کے جواب میں اپنی دستار ان کے پاس بھیج دی، جس سے مراد یہ تھی کہ تم میرے سرتاج ہو۔ہندو بہت زیادہ آپ کی خدمت میں آ کر اسلام قبول کرتے۔ایک ہندو عورت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئی اور ولایت کے درجہ کو پہنچی۔جب کبھی آپ اوچ شریف سے دہلی جاتے راستے میں بہت سے غیر مسلم آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرتے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی حرم محترم بھی بڑی عابدہ و زاہدہ تھیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ "وہ تہجد کے لئے مجھ سے پہلے اٹھا کرتی تھی اور جب تہجد کی نماز پڑھ لیتی تو مجھے بیدار کرتی”، بی بی ایسی ہی ہونی چاہئے۔ فرمایا۔ ایک مرتبہ وہ عبادت کر رہی تھیں کہ بےہوش طرح سجدہ میں گر پڑیں۔جب ہوش آیا تو سجدہ سے اٹھیں۔میں نے ان سے کہا جا کر وضو کرلیں، کیونکہ بے ہوشی سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ کہنے لگیں مجھے بے ہوشی نہ تھی میں نے دل کی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھا، پھر تعظیم میں کیوں سجدہ نہ کرتی۔مجازی بادشاہ کے لئے ہزاروں تعظیمیں کی جاتی ہیں،حقیقی بادشاہ کی تعظیم سجدہ سے کیوں نہ کرتی۔
امام قطب العالمین و عارفین و کاشف اسرار لوح و قلم حضور حضرت میر سید جلال الدین جہانیاں جہاں گشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "ہر سانس کے ساتھ اللہ کو یاد کرو”۔اس فرمان و قول کی روحانی تشریح حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی مدظلہ اس طرح فرماتے ہیں کہ ہم "جب اندر سانس لیتے ہیں تو ہمارا رخ باطن کی طرف ہوتا ہے۔زندگی اور زندگی سے متعلق جذبات و احساسات، واردات و کیفیات، تصورات و خیالات اور زندگی سے متعلق تمام دلچسپیاں اس وقت تک قائم ہیں جب تک سانس کی آمد و رفت جاری ہے۔زندگی کا دارومدار سانس کے اوپر قائم ہے۔سانس کی طرزوں پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ذی روح میں سانس کا نظام قائم و دائم ہے۔لیکن ہر نوع میں سانس کے وقفے متعین ہیں مثلاً یہ کہ اگر آدمی کے اندر سانس کے ذریعے دل کی حرکت متعینہ وقت میں ۲۷ ہے تو بکری میں اس سے مختلف ہو گی۔ چیونٹی میں اس سے بالکل مختلف ہو گی۔کوئی ایسا آلہ ایجاد کر لیا جائے کہ جس سے درخت کے سانس کی پیمائش ہو سکے تو اس کے سانس کی دھڑکن بولنے والی مخلوق سے مختلف ہو گی اور اگر ہم کوئی ایسا آلہ ایجاد کر لیں،جس سے پہاڑ کی نبض کی حرکت ریکارڈ کریں تو وہ درخت کے اندر کام کرنے والی نبض کی حرکت سے مختلف ہو گی۔ہر شخص یہ جانتا ہے کہ ایک سانس آتا ہے، ایک سانس جاتا ہے یعنی ایک سانس ہم اندر لیتے ہیں اور ایک سانس باہر نکالتے ہیں۔ یہ بات بھی ہم سب کے سامنے ہے کہ پرسکون حالت میں سانس میں ایک خاص قسم کا توازن ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پریشانی، غم یا اضطراب میں سانس کی کیفیت مختلف ہو جاتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی آدمی ڈر جائے تو اس کے دل کی حرکت تیز اور بہت تیز ہو جاتی ہے۔ اگر غور کریں تو نظر آئے گا کہ دل کی حرکت کے ساتھ سانس کی حرکت بھی تیز ہو جاتی ہے۔سانس کے دو رخ ہیں۔ایک رخ یہ ہے کہ ہم سانس اندر لیتے ہیں یعنی سانس کے ذریعے آکسیجن جذب کرتے ہیں اور دوسرا رخ یہ ہے کہ ہم سانس باہر نکالتے ہیں یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔یہاں پر بہت غور طلب نکتہ یہ ہے کہ جب ہم سانس لیتے ہیں تو کوئی چیز اندر جا کر جلتی ہے یعنی فضا میں جو آکسیجن پھیلی ہوئی ہے وہ سانس کے ذریعے اندر جا کر جلتی ہے جس طرح گاڑی کے اندر پیٹرول جلتا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بھلا ہوا فضلہ باہر نکل جاتا ہے۔یہ سلسلہ پیدائش سے موت تک برقرار رہتا ہے۔ اب ہم اس کو روحانیت کی طرز پر بیان کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ جاتی ہے۔ ہم جب اندر سانس لیتے ہیں تو ہمارا رخ باطن (Inner) کی طرف ہوتا ہے۔ ہم جب سانس باہر نکالتے ہیں تو ہماری تمام دلچسپیاں دنیا، دنیا میں پھیلی ہوئی چیزوں اور اپنے گوشت پوست کے حواس کے ساتھ قائم رہتی ہیں جو اس کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ وہ ہے جو ہمیں زمان و مکان (Time and Space) میں قید کرتا ہے۔دوسرا رخ وہ ہے جو ہمیں زمان و مکان سے آزاد کرتا ہے۔ نیند کی حالت میں ہمارے اوپر غالب رہتا ہے یعنی جب ہم سو جاتے ہیں تو ہمارے شعوری حواس کی نفی ہو جاتی ہے اور ہمارے اوپر سے زمان ومکان کی گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور جب ہم بیدار ہو جاتے ہیں تو زمان و مکان سے آزاد حواس و عارضی طور پر ہم سے الگ ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق خواب اور بیداری زندگی کے دو رخ ہیں یعنی انسان کی زندگی دو رخ یا دو حواس سے مرکب ہے۔ ایک کا نام دن یا بیداری ہے اور دوسرے کا نام خواب یا رات ہے۔ رات کے حواس میں ہر ذی روح مخلوق زمان و مکان سے آزاد ہو جاتی ہے۔ دن کے حواس میں ہر ذی روح مخلوق زمان و مکان کے حواس میں قید ہو جاتی ہے۔ زندگی کا قیام سانس کے اوپر ہے اور سانس کے دو رخ ہیں۔ایک رخ یہ کہ سانس ہم اندر لیتے ہیں اور دوسرا رخ یہ کہ ہم سانس باہر نکالتے ہیں۔ سانس کا اندر جانا ہمیں ہماری روح سے قریب کر دیتا ہے اور سانس کا باہر آنا ہمیں اس حواس سے قریب کرتا ہے جو حواس ہمیں روح کی معرفت سے دور کرتے ہیں۔ جب ہم آنکھیں بند کر کے یا کھلی آنکھوں سے کسی طرف پوری یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں تو سانس اندر لینے کا وقفہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ یعنی ہماری شعوری توجہ روح کی طرف ہو جاتی ہے۔ تصوف(صوفی ازم ،میٹا فزکس) کے اوپر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں روحانی علوم کا تذکرہ تو کیا گیا ہے۔لیکن اس علم کو ایک اور ایک دو، دو اور دو چار کی طرح عام نہیں کیا گیا۔ بہت سے رموز و نکات بیان کئے گئے پھر بھی رموز و نکات پردے میں اس لئے ہیں کہ ان رموز و نکات کو وہی حضرات سمجھ سکتے ہیں جو منزل رسیدہ ہیں یا جو حضرت راہ سلوک میں سفر کر چکے ہیں۔ہمارے اسلاف نے یہ بھی فرمایا کہ روحانی علوم چونکہ منتقل ہوتے ہیں۔اس لئے ان کو محفوظ رہنا چاہئے اور ان کی حفاظت کرنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علوم کا نام علم سینہ رکھ دیا گیا۔ اسلاف نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ روحانی علوم (میٹا فزکس) حاصل ہونے کے بعد ان کے نتائج (مافوق الفطرت باتوں) کو چھپا لینا چاہئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ ایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسانوں کے اندر سوچنے سمجھنے اور علم حاصل کرنے کی صلاحیت اتنی نہیں تھی۔جتنی صلاحیت آج موجود ہے۔
سائنس(فزکس) کے اس ترقی یافتہ دور سے پہلے دور دراز آوازوں کا پہنچنا کرامت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن آج سائنس دانوں نے آواز کا طول موج (Wavelength) دریافت کر لیا ہے۔خیالات کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا بھی کرامت (مافوق الفطرت) بیان کیا جاتا تھا۔آج کی دنیا میں ہزاروں میل کے فاصلے پر پوری کی پوری تصویر منتقل ہو جاتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں صرف پچاس سال پہلے لوگوں سے یہ کہا جاتا تھا کہ آدمی روشنیوں کا بنا ہوا ہے تو لوگ مذاق اڑاتے تھے۔ آج سائنس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آدمی لہروں سے مرکب ہے۔نہ صرف یہ کہ انہوں نے یہ بات بتا دی کہ آدمی لہروں سے مرکب ہے،وہ آدمی کی ایک جگہ سے گزرنے کے بعد بھی تصویر لے لیتے ہیں۔جہاں سائنسی ظاہری اپروچ ختم ہوتی ہے، وہیں سے روحانی کرشمے کا نقطہ آغاز ہوتاہے۔پہلے زمانے میں دادی اور نانی بچوں کو کہانی میں اڑن کھٹولوں کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ ایک اڑن کھٹولہ تھا۔اس پر ایک شہزادی اور شہزادہ بیٹھے اور اڑ گئے۔دادی اور نانی کے وہی اڑن کھٹولے آج ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔نہ صرف یہ کہ موجود ہیں بلکہ ہم اس میں بیٹھ کر اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق سفر بھی کرتے ہیں۔ان تمام مثالوں سے یہ بتانا مقصود ہے کہ سائنس کی ترقی سے پہلے نوع انسانی کی صلاحیت اتنی نہیں تھی کہ روحانی رموز و نکات اس کی سمجھ میں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بزرگوں اور اسلاف نے پہلے چند لوگوں کا انتخاب کیا اور پھر ان کو وہ علوم منتقل کر دیئے لیکن آج کے دور میں انسان کی دماغی صلاحیت اور سکت، فہم اور تفکر اتنا زیادہ طاقتور ہے کہ جو چیزیں پہلے کشف و کرامات کے دائرے میں آتی تھیں۔ آج وہی چیزیں انسان کی عام زندگی میں داخل ہیں۔جیسے جیسے علوم سے انسان کی سکت بڑھتی گئی، شعور طاقتور ہو گیا۔ذہانت میں اضافہ ہوا۔گہری باتوں کو سمجھنے اور جاننے کی سکت بڑھی۔سائنس کی ترقی سے یہ بہت بڑا فائدہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے شعور کی طاقت بڑھی اسی مناسبت سے آدمی کے اندر یقین کی طاقت کمزور ہوتی چلی گئی۔ یقین کی طاقت کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ سے دور ہو گیا اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنس کی ترقی کا آسائش آرام وسکون کا نام بن گیا ہے۔انسان بنیادی طور پر سہل پسند بنایا گیا ہے۔دنیا مادہ پرستی ظاہری اشیاء کاحصول ہے چونکہ دنیا خود بے یقینی کا سمبل (Symbol) اور فکشن (Fiction) ہے اور مفروضہ حواس کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔اس لئے یہ ترقی بھی ہمارے لئے عذاب بن گئی۔اگر اس ترقی کی بنیاد ظاہر اسباب کے ساتھ ماورائی صلاحیت کی تلاش ہوتی تو یقین کمزور ہونے کی بجائے طاقتور ہوتا لیکن اس کے باوجود سائنسی علوم کے پھیلاؤ سے بہرحال اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے اندر ایسے علوم حاصل کرنے کی صلاحیت کا ذوق پیدا ہوا جو ہمیں روحانیت سے قریب کرتےہیں۔ اب سے پچاس سال پہلے یا سو سال پہلے جو چیز پچاس پچاس، سو سو سال کی ریاضت کے بعد حاصل ہوتی تھی اب وہی چیز ارادے کے اندر یقین مستحکم ہونے سے چند مہینوں اور چند سالوں میں حاصل ہو جاتی ہے۔روحانی کرشمہ دل کا سکون ہے۔وہ ذکر الہی سے حاصل ہوتاہے۔جو عمل ہمیشہ اولیاء اللہ کرام کے آستانوں و مزارات و خانگاہوں سے ملتا ہے۔دین اسلام کی طلب رکھنے والوں کو ہمہ وقت قرآن مجید
،تفسیر مدارک حدیث مبارکہ صحاح ستہ،تصوف، مشارق الانوار کے ساتھ فقہ میں ہدایہ قدوری،عوارف المعارف رسالہ مکیہ، قصیدہ لامیہ کے علاوہ دیگر علوم باطنی کا درس فرماتے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے آستانے پر ہر وقت علم کے متلاشی طلباء کا ہجوم رہتا تھا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کی طبیعت کو ذرا بھی آرام نہ ملتا، ہمہ وقت دین متین کی تعلیمات سکھاتے رہتے۔کوئی بھی طالبعلم بار بار سوال اور مسئلہ سمجھنے میں سوالات کرتا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ بڑے احسن انداز میں جواب فرماتے، کبھی بھی ناراضگی کا اظہار نہ فرمایا۔کتنی عظیم الشان روحانی ہستی ولی کامل کہ آج بھی ہزاروں افراد روحانی فیض و برکات حاصل کرتے ہیں۔وقت کے جید عالم دین باصفا صوفی اوچ شریف سے حرمین شریف کا سفر صرف حصول علم کیا۔پھر دنیا بھر میں علم وادب ومعرفت کو عام کیا۔آج دنیا بھر میں کون ایسا سجادہ ہے جو تڑپ علم و عرفان دل میں رکھے ہوئے ہو۔کامل حقیقی شہنشاہ ولایت جلال صوفی کی کرامات تھیں کہ ہزاروں کی تعداد میں غیرمسلم نے اسلام قبول فرمایا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ پانچ وقت نماز کے علاوہ تہجد، اشراق، چاشت، صلوات الاوابین ، صلوات التسبیح کے ساتھ دیگر نوافل کا خصوصی اہتمام فرماتے۔آپنے شیوخ کے بتائے ہوئے طریقوں اور وظائف کو ہر حال میں پورا فرماتے۔رات کو کچھ دیر نیند فرمانے کے بعد باقی رات ذکر و عبادت الٰہی میں گزارتے، کھانا کبھی اکیلا نہیں کھایا، بلکہ آپنے احباب میں تقسیم فرماکر کھاتے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے 36 چھتیس مرتبہ حج کی سعادت حاصل کی۔شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ والہ والسلام کی سختی سے پابندی فرماتے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ اکثر فرماتے تھے کہ اصل شریعت ہے۔جب تک کوئی شریعت کو مضبوطی سے نہ پکڑے گا، حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا۔سخاوت و فیاضی کا یہ عالم تھا کہ جو بھی فتوحات آتیں،ان میں سے بقدر ضرورت خانگاہ کے لیے رکھ کر بقیہ مستحقین میں تقسیم فرما دیتے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے کہ میں فتوحات اس لیے قبول کرتا ہوں کہ شیخ مکہ امام یافعی و شیخ مدینہ عبداللہ مطری کے ساتھ دیگر بزرگان دین نے فرمایا کہ فتوح کو اس لیے قبول کرو کہ دوسروں تک پہنچاو اور صرف ضرورت کے لئے کچھ رکھ لیا کرو۔آپ رحمتہ اللہ علیہ آپنے ہم عصر بزرگوں کا بہت زیادہ احترام فرماتے۔مگر گمراہ اور جاہل صوفیوں کی بھی خوب خبر لیتے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ شریف میں دو سال قیام فرمایا۔اس کے علاوہ بیت المقدس،یمن،عدن،دمشق، ایران،خراسان، افغانستان،عراق کربلا و نجف اشرف،لبنان،تبریز،بلخ، مدائن،سمر قند، بخارا،بحرین،موجودہ، بنگلہ دیش،انڈیا،پاکستان سمیت دنیابھر کے کونے کونے میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے سفرنامے بہت مشہور ہیں۔ہزاروں افراد کو کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھا کر مسلمان فرمایا۔اس وجہ سے مشہور لقب ” جہانیاں جہاں گشت بخاری ” سے معروف عام و خاص ہیں۔بارگاہ رسالت مآب حضرت محمد مصطفٰی خاتم الرسل صلی اللہ علیہ والہ والسلام میں عرض گزار ہوئے۔السلام علیک یا جدی، جواب ملا ” وعلیک السلام یا ولدی۔”۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس دادا جان حضور شہنشاہ تجلیات و جلال گنج اعظم منبع عرفان وبرکات حضور حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا خاص پیالہ بھی تھا۔جو حکم ربی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا ورد کیا کرتا تھا۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ملفوظات و تعلیمات و کرامات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔چند مشہور فرمودات میں 1۔اللہ پاک کا ولی صرف رب الجلال کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا۔2۔جاہل صوفیوں سے دور رہو، کیونکہ وہ دین کے چور اور مسلمانوں کے راہزن ہیں۔3۔علم لدنی کے لیے تقوی و پرہیزگاری ایسے شرط ہے جیسے نماز کے لیے وضو۔4۔ہر مسلمان پر عمل سے پہلے علم واجب ہے۔5۔درویش کی خدمت بہت بہتر ہے۔6۔ظاہر و باطن میں آپنے آپ کو صرف اللہ کے ساتھ رکھو۔7۔جسے یاد کا وصل نصیب ہوا،ادب کے باعث ہوا ہوگا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ملفوظات خزانہ جلالیہ، سراج الہدایہ اور جامع العلوم کےنام سے مشہور ہیں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کا وصال 10 ذوالحجہ 785ھ بروز سوموار عید الاضحٰی بمطابق 2 فروری 1384ء کو سرائیکی وسیب کے روحانی شہر اوچ شریف تحصیل احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور (پاکستان) میں ہوا۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار شریف مرجع خلائق عام و خاص ہے۔حکومت پاکستان کامل حقیقی ولی کے نام سے فوری حضرت سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ انٹرنیشنل صوفی ازم انسٹیٹیوٹ قائم کرے۔ سید جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ عالمی لائیبریری قائم کی جائے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے میوزیم اور پارک اوچ شریف میں بنایا جائے۔تاکہ عظیم الشان روحانی صوفی بزرگ حضرت سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا فلسفہ جلال ہر عام خاص تک پہنچ سکے۔
*ریفرنس کتب*
تاریخ اوچ متبرکہ،علامہ مفتی محمد سراج احمد سعیدی قادری رضوی۔تذکرہ اولیائے پاک و ہند،میرآت جلالی،میرآت الاسرار، اخبار الاولیاء،انسائیکلوپیڈیا اولیاء کرام،تذکرہ جہانیاں جہاں گشت ،یادگار سہروردیہ، تذکرہ اولیائے پاکستان جلد دوم، تاریخ پاک و ہند تاریخ فرشتہ،خطہ پاک اوچ،سفینہ الاولیا،خزانہ جلالیہ، حدیقہ اسرار،بزرگان بہاولپور،۔قومی اخبارات۔
انٹرویوز:1۔سجادہ نشین درگاہ جلالیہ مخدوم الملک سید زمرد حسین بخاری سئیں اوچ شریف۔2۔مخدوم سید غلام مجتبٰی شاہ بخاری سابق اسپیشل مجسٹریٹ پیر آف اوچ شریف
3۔خلیفہ و شجرہ نویس شمیم عباس نوکر سادات بخاریہ برصغیر پاک و ھند درگاہ حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت بخاری رحمتہ اللہ علیہ۔4۔خلیفہ اشفاق احمد چنن درگاہ جلالیہ بخاریہ مبارکہ حضرت سید شیر شاہ جلال الدین حیدر سرخ پوش بخاری رحمتہ اللہ علیہ اوچ شریف۔مجاور محمد صابر درگاہ حضرت مخدوم سید جلال الدین حسین جہانیاں جہانگشت بخاری رحمتہ اوچ شریف