Advertisements

حضرت خواجہ محکم الدین سیرانیؒ

Khanqah Sharif Bahawalpur
Advertisements

خانقاہ شریف(بہاولپور)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سلطان التارکین حضرت خواجہ محکم الدین اویسی سیرانی ؒ باد شاہؒ
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے اپنے نبی اور پیغمبر مختلف اوقات اور مختلف مقامات پر تعینات فرمائے۔ جب یہ سلسلہ حضرت محمدمصطفی احمد مجتبیٰ نبی آخر الزماں ﷺپر ختم فرمایا تو صحابہ کرام علماء عظام اور اولیا اللہ نے اس ذمہ داری میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ جب کچھ میل کا فاصلہ طے کرنا بھی جوکھوں کا کام تھا اولیاء کرام نے دور دراز کے سفر اختیار کیے رضائے الہٰی کے لیے سختیاں برداشت کیں لیکن ہمیشہ ثابت قدم رہے۔بلا امتیاز دین اسلام اور انسانوں کی خدمت کی کسی کو مجبور نہیں کیا۔

Advertisements

اسلام لاؤ تو ہی تمارے کام آئیں گے۔حضرت محمدﷺ کی سنت پر چلتے ہوئے پیار سے اور حسن اخلاق سے لاکھوں لوگوں کو مسلمان کیا اور سیدھاراستہ دکھایا انسانیت کی خدمت دین سے عشق اور حضرت محمدﷺسے سچی محبت ہی کی وجہ ہے کہ ان کے درباروں،مزاروں پر فاتحہ خوانی،قرآن خوانی و محبت کا اظہار کرنے روز لاکھوں لوگ آج بھی حاضری دیتے ہیں۔

سلطان التارکین حضرت خواجہ محکم الدین اویسی سیرانی ؒ کے احوال واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے زیادہ سے زیادہ سفر کیا آپ کا کوئی ایک علاقہ مقرر نہیں تھا دین اور انسانیت کی خدمت کی آپ کے بارے میں اپنی سمجھ (محدود علم)کے مطابق معلومات کو ترتیب دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ آپ1137ہجری کے لگ بھگ محب علی کے مقام پر پیدا ہوئے جو پاکپتن سے 16کلو میٹر کے فاصلے پر دریائے گھارا(دریائے ہالڑہ) کے کنارے پر واقع ہے۔آپ کے اجداد گوگیرہ،اوکاڑہ،ساہیوال کے رہنے والے تھے لیکن آپ کے والد محترم یہاں محب علی کے مقام پر آکر آباد ہوگئے تھے۔

آپ کے اجداد راجپوتوں کی گوت کھرل جو بہادراور جنگجو قوم ہے۔برصغیر میں اپنی بہادری سے تاریخ رقم کی۔ اس قوم سے سلطان العاشقین حضرت خواجہ پیرعبدالخالق اویسی ؒ،سلطان التارکین حضرت خواجہ محکم الدین اویسی سیرانی ؒ باد شاہؒ،حضرت قبلہ عالم نور محمد مہاروی ؒ،حضرت حافظ محمد دائم ؒجیسی باکمال ہستیوں نے جنم لیا۔حضرت خواجہ محکم الدین اویسی سیرانی ؒ کا پیدائش کے وقت نام عبداللہ رکھا گیا تھا۔بعد میں آپ محکم الدین کے نام سے مشہور ہوئے آپ کے والد،دادا،چچا،چچا زاد بھائی اور والدہ ماجدہ سب حافظ قرآن پاک تھے۔حضرت حافظ محمد طاہر ؒ آپ کے چچا فِقہ اورحدیث کے ماہر مانے جاتے تھے آپ کے فتوٰی کو سند کا درجہ حاصل تھا۔

آپ ؒکی تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا اور تھوڑی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا کچھ عرصہ لاہور میں تعلیم حاصل کی پھر آپ کے حقیقی چچازاد بھائی حضرت خواجہ عبدالخالق اویسی ؒ آپ کو تکمیل علم کے لیے اپنے ہمرا دہلی لے گئے۔آپ اور قبلہ عالم حضرت نور محمد مہارویؒ نے حضر ت مولانا فخرالدین عرف فخر جہاں دہلوی ؒ کے درس سے علم وفضل حاصل کیا۔ حضرت خواجہ قبلہ عالمؒ،حضرت فخر جہاں دہلویؒ کے مرید ہو گئے اور ان سے حضرت محکم الدین کو بھی مرید کرنے کو کہا۔حضرت فخر جہاں ؒ نے فرمایاحضرت خواجہ عبدالخالق اویسی کے ہوتے ہوئے انہیں کسی کی رہنمائی کی کیا ضرورت ہے۔

ان کی بعیت ان کے گھر میں ہی ہے۔وطن واپس تشریف لائے حضرت خواجہ پیر عبدالخالق اویسی کے دست مبارک پر بعیت کی آپ مرشد کی خدمت اور صحبت میں رہے اور آپ ہی سے خلافت اور بعیت کی اجازت حاصل کی۔خدمت اور صحبت میں رہنے کی وجہ سے آپ بھی مرشد کے رنگ میں رنگے گئے۔مرشد کے حکم پر حضرت دیوان چاولہ مشائخ ؒ کے مزار پر حاظر ہو کر اعتکاف کیا روزے رکھے اور عبادت میں رہے۔دوران چلہ آپ کو غائب سے متعد مرتبہ قُل سیرُفی الارضِ کی آواز سنائی دی اعتکاف اور چلہ کی تکمیل کے بعد آپ کا دل بیر سے روزہ افطار کرنے کا ہوا اس وقت ایک شخص آیا اور کچھ دانے بیر کے پیش کیئے اور کہا اس سے روزہ افطار کریں اور آپ یہاں سے چلے جائیں۔

آپ کا مقصد پورا ہو گیا ہے (یہ موسم بیر کا نہیں تھا)وہاں سے رخصت ہو کر مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے دوران عبادت روزہ اعتکاف چلہ کا احوال مرشد کو بیان کیا مرشد نے فرمایا آپ کو قل سیرُفی الارضِ کا حکم ملا ہے۔یعنی سیر کرکے پوری دنیا میں تبلیغِ دین،اشاعت اسلام حضرت محمدﷺ کے پیغام کو پھیلائیں آپ کو یہ فریضہ سونپا گیا ہے۔

مرشد کو سارا احوال بیان فرمانے قُل سیرُ فی الارضِ کا مقصد جاننے کے بعد سے آپ نے دنیا کی باقی مصروفیات و کاموں سے آزادی اختیار کر لی اور ہمیشہ سفر میں رہنے لگے اور ساری زندگی سفر میں بسر کر دی دین و انسانیت کی خدمت کے لیے بہت بڑے بڑے سفر اختیار کیے دکھیاروں کی ہمیشہ مددفرماتے دعا دیتے ہمیشہ قرآن و حدیث کی بات کی لاکھوں کو مسلمان کیا لاکھوں بے راہوں کو سیدھا راستہ دکھایا دنیاوی خواہشات و آرام کو ترک کرنے کی وجہ سے آپ سلطان التارکین اور ہمیشہ سفر میں رہنے کی وجہ سے صاحب السیرؒ کے لقب سے مشہور ہوئے مختلف جگہ کی زبانوں کی وجہ سے صاحب السیر کے علاوہ سیرانی اور سیلانی بھی آپ کو کہا اور لکھا جاتا ہے۔

(سب کا معنی ایک ہے) آپ کے حقیقی چچا زاد بھائی و مرشد سلطان العاشقین حضرت خواجہ عبدالخالق اویسی ؒ کی روحانی بعیت حضرت اویس کرنیؒ سے ہوئی اس لیے سلسلہ اویسی ہوا۔ سلطان التارکین حضرت خواجہ محکم الدین اویسی سیرانی بادشاہؒ ہر وقت باوضو رہا کرتے اور آداب شرعیہ سے ہرگز تغافل نہ فرماتے تہجد کبھی قضا نہ کی۔آپ کو پیران پیر غوث الاعظم حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ سے بہت عقیدت و محبت تھی آپ فرماتے کہ مجھے حضرت شیخ عبدالقادر گیلانی ؒ سے بلاواسطہ فیض حاصل ہوا ہے اس لیے فقیر کا سلسلہ قادری اویسی ہے مغرب کی نماز کے بعد قصیدہ غوثیہ پڑھا کرتے تھے۔

روحانی اتباسے بلند درجے پرفائز ہونے کے علاوہ آپ کا علمی مقام بھی بہت ارفعُ ا علیٰ تھا۔آپ کی خدمت میں بڑے عالم فاضل مشکل مسائل اور علمی نکات آپ سے سمجھنے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے آپ نے ”تلقین لدنی“کے نام سے کتاب تصنیف فرمائی جس میں آپ نے شریعت،طریعت،حقیقت اور مارفت کی تشریح فرمائی جس سے آپ کے علمی مقام کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔تقریباً سو سال سے زائد قبل ”ابوالعلائی“پریس آگرہ ہندوستان میں آپ کی تصنیف شائع ہوئی لیکن اب یہ نا پید ہے۔

تصنیف کے کچھ کلمات بمع ترجمہ”صاحب السیرؒ“تصنیف حضرت محمدصلاح الدین اویسی صاحب میں موجود ہیں۔ سلطان العاشقین پیر و مرشد حضرت خواجہ عبدالخالق اویسیؒ آپ کی ریاضت مجاہدہ اور مراج روحانی کے حصول کے متعلق آپ کی بہت تعریف فرماتے۔

آپ فرمایا کرتے تھے میں نے محکم الدین کو فقر(روحانی تعلیم)کا ایک چاول دیا تھامگر محکم الدین نے اپنی محنت سے ایک سے ہزاروں من کا ڈھیر بنا لیا۔

حضرت خواجہ نور محمد مہارویؒ نے فرمایا میں نے مرشد حضرت مولانا فخر الدین عرف فخر جہاں دہلوی ؒ سے وطن واپسی کے لیے اجازت چاہی تو آپ نے فرمایا فلاں جگہ ایک بزرگ کا مزار ہے ان کے مزار پر جا کر فاتحہ اور حاضری دے یہ وہ بزرگ ہیں جن کا کسی کو علم نہیں،جب میں مزار پر حاضر ہوا تو پہلے سے ایک شخص کو فاتحہ پڑھتے ہوئیے موجود پایانزدیک پہنچنے تک وہ فاتحہ کر کے چلے گئے اور ان کو دیکھ نہیں پایاواپسی آکر مرشد کو احوال سنایا آپ کچھ دیر خاموش ہوئے پھر فرمایا یہ محکم الدین کے علاوہ کوئی نہیں کہ ان سے کسی شے کا پردہ نہیں۔

روہی(چولستان)میں حضرت سیرانی بادشاہؒ ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے بہاول خاں عباسی صاحب آپ کی خدمت میں پیش ہوئے اور زمین پر بیٹھ گئے۔آپ نے ان کو کپڑے پر جس پر آپ تشریف فرما تھے بیٹھنے کے لیے کہاتو بہاول خاں صاحب نے کہا کے حضرت ادب اجازت نہیں دیتاآپ کے اسرار پر کپڑے کے کچھ حصے پر بیٹھ گئے اور عرض کی کہ تعمیل حکم ہو گیا ہے۔

ہندو مہاراجہ سے لڑائی میں فتح یابی کہ لیے دعاکی درخواست کی آپ نے دعافرمائی اور کہا اگر اس پورے کپڑے پر بیٹھ جاتے تو پورا ہندستان تمہارا ہوتاآپ نے سامان سے رسی لی (جو اس وقت میسرتھی) سر پرباندھی اور فرمایا لو بہاول خاں تمہاری تاج پوشی ہو گئی۔آپ کی دعا کی برکت ہوئی بہاول خاں عباسی صاحب نے ریاست کے ہندو راجہ کو شکست دی اور نواب بہاول خاں عباسی اول کے لقب سے ریاست بہاولپور کی بنیاد رکھی جس رسی سے دستار بندی فرمائی تھی بطور تبرک محفوظ کر لی۔آج بھی خاندان عباسیہ کے پاس محفوظ ہے۔

روہی جس جگہ حضرت سیرانی بادشاہ ؒ عبادت فرمایا کرتے اور نواب بہاول خاں صاحب اول والی ریاست بہاولپور کی تاج پوشی کی اور دعا فرمائی کوکنڈا سیرانی کہا جاتا۔فتح یابی کے بعد نواب صاحب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے دعا اور مرید کرنے کے لیے عرض کی آپ نے دعا کی اور فرمایا میں فقیر ہوں اور فقیروں اور بادشاہ کا کیا واسطہ آپ چاچڑاں شریف جا کر بیعت حاصل کریں۔فرمایا فقیر اور فقیر کے خاندان سے آپ کے خاندان کا کوئی سربراہ مرید نہ ہو گا۔

فرمان کے مطابق حضرت کے خلفا سجاد گان میں سے کسی بھی ریاست کے کسی سربراہ کو مرید نہ کیا البتہ سربراہان کے علاوہ خاندان عباسیہ کے مرد وصاحبان و خواتین صاحبزادگان سجاد گان کے مرید ہوتے رہے۔نواب مظفر خان صاحب (گورنر ملتان)آپ سے بہت محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔حضرت سے ہمیشہ دعا اور بعیت کی عرض کرتے آپ ہمیشہ ان کے لیے دعا فرماتے پر مرید نہیں کیا۔حضرت خواجہ سیرانی بادشاہ سے عقیدت محبت رکھنے والوں دعاوں سے فیضیاب ہونے والے اور کرامات کی فہرست بہت طویل ہے۔

دین محمدﷺ کے فروغ کے لیے بہت مشکلات و تکالیف باآسانی برداشت کیں نہ صرف برے صغیر پاک و ہند بلکہ کئی ممالک میں سفر کیا اور دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت اسلام نمایا کاوشوں سے بے شمار لوگ آپ کے دست حق پر بعیت ہو کر اسلام میں داخل ہوئے اپنی تمام زندگی تبلیغ اسلام میں بسر کر دی اس لیے شادی بھی نہ کی آپ نے حقیقی بھائی حضرت خواجہ امان اللہؒ کے چھوٹے بیٹے حضرت سلطان احمد دین اویسی ؒ کو بیٹا بنایا ہوا تھا جو آپکی خدمت میں رہا کرتے تھے آپ دہراجی کاٹھیاوارڈہندستان میں تھے واپسی کا ارادہ ہوا تو ایک عقیدت مند جس کا نام حافظ محمد کوکی تھا نے کھانے میں زہر ملا دیا تاکہ آپ کہیں اور نہ جا سکیں بلکہ دہراجی میں ہی آپ کا مزار مبارک ہواور اس کے پاس رہیں۔

حالت جیسے غیر ہوئی آپ نے مرید ابوطالب کو کہا کہ حافظ محمد کوکی کو میرے بعد کچھ بھی نہ کہا جائے نہ نقصان پہنچایا جائے اور کچھ رقم دے کر فرمایا کفن دفن اور خیرات کرنہ(۷۹۱۱ھ)(1777ء) پانچ ربع الثانی کو خالق حقیقی سے جا ملے (اِناللہ ِواِنااللہ ِراجِعُون) تدفین کی تیاری و غسل کے بعد نماز جنازہ ادا کی گئی جنازہ میں ہزاروں لوگوں کے ساتھ کئی سفید پوش نورانی چہرے شامل ہوئے۔

میاں ابوطالب شیخ نتھونے اطلاع بذریعہ مراسلہ بہاولپور اور پھر آپ کے گھرانے تک پہنچی حضرت خواجہ سلطان احمد الدین اویسی ؒ بمعہ خدام بہاولپور پہنچے اور دہراجی کے لیے روانہ ہوئے وہاں پہنچے تو اہل دہراجی اور حافظ کوکی حضرت ؒ کا جسد مبارک یہاں سے لے جانے دینے کے لیے ہرگز رضامند نہ تھے بہت گفت و شنید اور بحث ہوئی اس حد تک کے بات دھمکیوں تک آگئی بہت دیر تک کوئی صورتحال بہتر نہ ہوئی۔حضرت ؒ کے وطن سے آنے والے صاحبان علیحدگی میں بیٹھ کر اس صورتحال کے بارے میں سوچ رہے تھے۔اس دوران کچھ لوگ سو گئے تو ایک شخص کو بشارت ہوئی کہ دو ہمشکل صندوق بنائیے جائیں ایک میں آپ کا جسد مبارک رکھ کر حافظ کوکی کو پہلے چن لینے کو کہا جائے۔

چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور حافظ کوکی نے پہلے ایک صندوق چن کر فوراً کھولاتو آپ کا جسد مبارک موجود تھاا ہل دوراجی بہت خوش ہوئے۔وطن سے آنے والے صاحبان کو اپنی قسمت پر رنج اوربے حد افسوس ہوا اس حد تک کے حافظ نجم الدین صاحبؒ بے ہوش ہو گئے تو خواب میں حضرت سیرانی بادشاہ ؒکی زیارت ہوئی۔آپ نے فرمایا نجم الدین اداس نہ ہو فقیر ظاہری طور پر حافظ کوکی کے پاس ہے اور باطنی طور پر تمہارے ہاں ہے۔
اٹھو اور اپنی صندوق کھول کر دیکھو جب دیکھا گیا تو آپ اس میں بھی موجود تھے۔(روایت ہے کہ خواب میں حکم فرمایا فقیرکو صندوق میں نہیں چار پائی پر لے جایا جائے) واپسی کا سفر شروع ہوا بہت مسافت تے کرنے کے بعد یہ قافلہ بذریعہ ریاست بیکانیر اور ریاست جسیلمیرسے ہوتا ہوا ریاست بہاولپور میں گوٹھ بخشا پہنچا تو رات یہاں ارام کرنے کا فیصلہ ہوا حضرت ؒ یہاں اکثر ایک مسجد جو اونچی جگہ پر تھی اور بڑی مسجد کہا جاتا تھا جس کہ امام صاحب کا قرآن پاک کی تلاوت کا لہجہ بہت پسند تھا میں قیام فرمایا کرتے تھے۔

یہاں سب آپ کے عقیدت مند مرید تھے اور ایک خاتون جن کا نام حلیمہ تھا جو آپ کی منہ بولی بہن بنی ہوئی تھی۔باقی بستی کی طرح زیارت کرنے آئی اور چارپائی کے ساتھ رک کر کہامیں نے ایک بار آپ کو کہا تھا کہ آپ مجھے بہن کہتے ہیں ہمیشہ سفر میں رہتے ہیں نہ جانے کب اللہ تعالیٰ کی جانب سے بلاوا آجائے اور بہن کو کچھ علم ہی نہ ہو کہ آپ کہاں ہیں اور کب تشریف لائیں گے آپ نے کہا تھا جہاں بھی فقیر ہوا آخر میں اپنی بہن کے پاس ہو گاپر اب آپ ہمیشہ کے لیے جا رہے ہیں۔

(دو روایات ملتی ہیں کہا جاتا ہے۔ مائی حلیمہ کہ زیارت کر کے جانے کے بعد قافلے میں کسی کو خواب میں حکم ہوا کہ حضرت کا محل دربارعالیہ یہیں بنائی جائے دوسری روایت ہے کہ جب صبح حضرت ؒ کی چارپائی اٹھائی گئی تو کسی سے بھی اٹھنے نہ پائی اور اسی کو ہی حکم جانا اور آپ کو یہاں سپرد خاک کر دیا گیا) منہ بولی بہن مائی حلیمہ نے جو بات سب کے سامنے کہی کچھ حضرات نے یہ گفتگو خود سن رکھی تھی۔چنانچہ صاحبزادگان،مریدین اور خدام(اہل قافلہ)نے فیصلہ کیا کہ حضرتؒ کی آرام گاہ یہی بنائی جائے مائی حلیمہ کی جھونپڑی جس جگہ تھی آپ وہی آرام فرماں ہیں۔

گوٹھ بخشا اس کے بعد سے خانقاہ شریف ہو گیا اللہ تعالیٰ کا خاص کرم رہا ہردور میں خانقاہ شریف اپنے جیسے آبادیوں سے بہت آگے رہا ہر حساب میں بڑی مسجد جس کو سیرانی سائیں والی مسجد کہا جاتا ہے وہ آج بھی اسی جگہ موجود ہے۔خانقاہ شریف بہاولپور سے تقریباً16کلو میٹر کے فاصلے پرمین جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔نواب مظفر خان صاحب (گورنر ملتان)نے حضرتؒ کے مزار پر چبوترہ وضو کے لیے تالاب ساتھ مسجد بھی تعمیر کرائی۔بعد میں ریاست بہاولپور والی نواب بہاول خاں عباسی صاحب اور نواب فتح محمد خان صاحب عباسی نے۵۱۳۱ھ میں اندرونی بیرونی چھت پر خوبصورت کام پایہ تکمیل کو پہنچایا بعد میں مولوی غلام محمد صاحب جو نواب صاحب کے خاندان کے قریبی اور ریاست بہاولپور میں ہوم منسٹر کے عہدہ پر فائز تھے۔بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے۔

حضرت سیرانی بادشاہؒ کے خلیفہ اور بے حد محبت کرنے والوں میں سے تھے نے بھی خوبصورت کام کرایا۔ آپ بہاولپور کی مشہور سیاسی شخصیت میاں نظام الدین صاحب وزیر تعلیم میجر شمس الدین صاحب کے پردادا تھے حضرت خواجہ سیرانی بادشاہ ؒ کے حقیقی بھائی حضرت خواجہ امان اللہ اویسی رحمت اللہ کے چھوٹے بیٹے (حضرتؒ کے بھتیجے) جن کو حضرتؒ نے اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔

حضرت خواجہ سلطان احمد الدین اویسی ؒ پر آپ کی دستار باندھی گئی اور آپ حضرت کے خلیفہ اول جانشین اول، سجادہ نشین اول ہوئے اور انہی سے خانوادہ و سلسلہ اویسی سیرانی چلتاآ رہا ہے۔خانوادہ خانقاہ شریف میں ہی رہائش پذیر ہے اور دربار عالیہ کی خادم ہے۔سلطان تارکین حضرت خواجہ محکم الدین اویسی سیرانی ؒ پر لکھی گئی پہلی تصنیف ”لطائف سیریہ“ ہے۔جو مولوی محمد جیون داجلی صاحبؒنے لکھی۔
جو فارسی میں ہے جس کا پہلا ترجمہ طالب رحمٰن فقیر علی مردان اویسی قادری ؒ نے کیا۔دوسرا آسان اردو ترجمہ 1980ء میں محترم جناب مسعود حسن شہاب دہلوی صاحب مرحوم و مغفور نے کیا۔یوں تو انکی بہت سی کتابیں تحریر ہیں لیکن اولیائے بہاولپوراور لطائف سیریہ کا اردو ترجمہ آپ کا بزرگان دین سے محبت کا واضع اظہار کرتا ہے۔علامہ محمد فیض احمد اویسی صاحب مروھ و مغفور مدرسہ عالیہ، اویسیہ، رضویہ بہاولپور شہرجو ایک بڑے عالم اور انتہائی نیک ہستی کے مالک تھے نے بھی 1985ء میں ”ذکر سیرانی“ کے نام سے ترجمہ کیا۔

حضرت کے عرس مبارک کی تقریبات یکم ربیع الثانی سے شروع اور پانچ ربیع الثانی کو اختتام پزیر ہوتی ہیں۔آخری دن صبح ختم شریف کے بعد سجادہ نشین اختتامی دعا کراتے ہیں (تین ربیع الثانی کو رات کو مزار شریف کو عرق گلاب سے غسل دیا جاتا ہے۔محفل نعت اور محفل سماع تین سے چار دن عرس مبارک کے موقع پر منعقد ہوتے رہتے ہیں)ہر سال آپ کا عرس مبارک (دوراجی انڈیا)دربار عالیہ بھی جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

نوٹ: تحریر کا مقصد سلطان التارکین حضرت خواجہ محکم الدین اویسی سیرانی بادشاہ ؒکے مرشد،سلسلہ،خاندان،جانشین،سجادہ نشین کے متعلق واضع اور صیح معلومات فراہم کرنا ہے۔جس کے لیے اپنے دادا سائیں حضور حضرت خواجہ محمد قاسم اویسی ؒسجادہ نشین و سابق (ایم۔ پی۔ اے) ویسٹ پاکستان اسمبلی کی تصنیف اویسی سیرانی“ اوراپنے چچا سائیں حضرت خواجہ محمد صلاح الدین اویسی کے موجودہ (سجادہ نشین)کی تصنیف ”صاحب السیر“سے استفادہ حاصل کیا حضرت خواجہ اویس قرنیؓ،سلطان العاشقین حضرت خواجہ پیر عبدالخالق اویسی ؒ اور سلطان التارکین حضرت خواجہ محکم الدین اویسی سیرانی بادشاہؒ کے متعلق”صاحب السیر“ میں تفصیل اور صیح ترتیب کے ساتھ معلومات ملتی ہیں۔سیرانی بادشاہ ؒ کے فرمودات اشاعت اسلام علمی مقام اولیاء کی نظر میں آپ کا مقام کرامات اولیا اور مرشد کا احترام ریازت، مجاہدہ، حلیہ، وفات،لباس، شجر نصب، خوراک، القابات سب صاحب السیرمیں تفصیل سے تحریر ہیں۔

Khanqah Sharif Bahawalpur

میری زندگی کاتجھ سے یہ نظام چل رہا ہے
تیرا آستاں سلامت میرا کام چل رہا ہے
کہ نہیں عرش و فرش پر ہی تیری عظمتوں کے چرچے
تہ خاک بھی لہد میں تیرا نام چل رہا ہے
(حضرت نصیر الدین شاہ صاحب)

Muhammad Hassaan Awaisi
تحریر: محمد حسان اویسی