پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت انگیز مہم
یکم جولائی 2025
تازہ ترین اطلاع کے مطابق پنجاب میں فرقہ واریت اور اشتعال انگیزی پر مبنی 271 سوشل میڈیا اکاؤنٹ پی ٹی اے کو رپورٹ کیے گئے جب کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیزی میں ملوث 17 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ اس کریک ڈاون سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت انگیز مہم ایک سنجیدہ اور بڑھتا ہوا مسئلہ بن چکا ہے۔ انٹرنیٹ اور خاص طور پر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ٹوئٹر (ایکس)، یوٹیوب، ٹک ٹاک، اور واٹس ایپ پر بعض افراد یا گروہ منظم انداز میں نفرت، فرقہ واریت، مذہبی تعصب، لسانی دشمنی، سیاسی اشتعال انگیزی اور کردار کشی پر مبنی مواد پھیلا رہے ہیں۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرت: سوشل میڈیا پر مختلف فرقوں، مسالک یا مذاہب کے خلاف توہین آمیز یا اشتعال انگیز پوسٹس کی جاتی ہیں جو معاشرے میں بدامنی کو فروغ دیتی ہیں۔ مختلف قومیتوں جیسے پنجابی، سندھی، بلوچ، پشتون یا مہاجر کے خلاف نفرت پھیلانے والی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے حامی ایک دوسرے کے خلاف فیک نیوز، ایڈیٹڈ ویڈیوز اور توہین آمیز تبصرے پھیلاتے ہیں، جس سے معاشرتی تقسیم بڑھتی ہے۔ , خواتین صحافیوں، انسانی حقوق کی کارکنوں، اور اقلیتوں کو اکثر سوشل میڈیا پر ہراساں کیا جاتا ہے، ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا اور نفرت انگیز مہم چلائی جاتی ہے۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق تعلیم کی کمی قانونی گرفت کا فقدان جعلی اکاؤنٹس کی بھرمار ریاستی و سیاسی مفادات کا دخل اسکے مختلف اسباب ہیں – سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے معاشرتی ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے عوامی سطح پر انتشار اور تشدد کا خطرہ بڑھتا ہے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا منفی تاثر قائم ہوتا ہے – اقلیتیں اور کمزور طبقات خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں – پاکستان میں پیکا ایکٹ جیسے قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عملدرآمد اکثر مخصوص مفادات تک محدود ہوتا ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور ایف آئی اے کا سائبر کرائم ونگ بھی اس حوالے سے سرگرم ہیں، تاہم نفرت انگیزی کو مکمل طور پر روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی، شفافیت اور شہری شعور ضروری ہے۔ سائبر قوانین پر منصفانہ عملدرآمد تعلیم اور ڈیجیٹل لٹریسی کے فروغ , سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مانیٹرنگ نفرت انگیز مواد کی فوری رپورٹنگ اور کارروائی نیز مذہبی، لسانی اور سیاسی رواداری سے اس اہم مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے – ہم حکومت سے گزارش کریں گے کہ وہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم کا موثر سدباب کرنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے اور پیکا ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے صحافی برادری کے تحفظات کو بھی دور کرے