صدر آصف زرداری سے نواب صلاح الدین عباسی اور پرنس بہاول خان عباسی کی ظہرانہ پر ملاقات کے حوالے سے معروف قلمکار حمید اللہ خان عزیز کا کالم
خود بھی روشن ہیں زمانہ بھی ہے ان سے روشن
کوئی دیکھے تو چراغوں کا فروزاں ہونا
امیر آف بہاول پور نواب صلاح الدین عباسی تاجدار بہاول پور کی وہ نشانی ہیں، جنہیں دیکھ کر ہمیں اپنے اسلاف اور قدیم بزرگوں کی شرافت کا احساس ہوتا ہے۔ ۔آج ایک مدت بعد نواب صاحب کو روزنامہ” نوائے احمد پور شرقیہ” کے فیس بک پیج پر صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری کے ساتھ خصوصی ملاقات میں متحرک دیکھ کر ازحد خوشی ہوئی۔۔ان کے ولی عہد صاحبزادہ پرنس بہاول عباس خان عباسی بھی ہمراہ ہیں۔۔۔انہوں نے نواب صاحب کو سہارا دینے کے لئے ان کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے،نواب صاحب مسکرا کر زرداری صاحب سے ملاقات کر رہے ہیں،انہیں ہنستا مسکراتا دیکھ کر ریاست کے باسیوں کو ضرور سکون ملا ہو گا.وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے پرنس بہاول سے بھی بات چیت کی بلکہ ملتے وقت انہوں نے پرنس بہاول عباس خان عباسی پر ازراہ شفقت ان کے چہرے کو تھپتھپایا۔۔۔گویا کہ وہ انہیں اپنے بچوں جیساباور کرا رہے ہیں۔نواب صاحب اور پرنس بہاول عباس خان عباسی کی ملاقات کے وقت کیا باتیں ہوئیں،ایجنڈا کیا تھا۔۔یہ بھی چند روز تک سامنے آ ہی جائے گا۔۔نواب صاحب کچھ عرصہ سے خاصے علیل چلے آ رہے ہیں۔۔سننے میں آیا تھا کہ بیرون ملک علاج کے لئے بھی تشریف لے گئے تھے۔۔لیکن آج وہ اس صورت میں نظر آئے کہ چال ڈھال میں وہی پہلے جیسی آن بان اور تمکنت، چہرہ پر مسکراہٹ، سر پر ترکی ٹوپی جس سے شانِ امتیازی جھلکتی ہے،کہ دیکھنے والے دل کی آنکھ سے سر صادق محمد خان عباسی کا چہرہ ملاحظہ کر رہے ہوں۔۔اور شخصیت میں ایسی بے نیازی کہ سامنے والا احترام سے نظریں جھکا رہا ہے۔۔۔
جناب نواب صلاح الدین عباسی نے خطہ بہاول پور میں شرافت اور ادب کی سیاست کو فروغ دیا ہے،اس اعتبار سے وہ نواب سر صادق محمد خان عباسی مرحوم کے صحیح جانشین قرار پائے ہیں۔”نوائے احمد پور شرقیہ”سے ہی ہمیں یہ خبر ملی کہ نواب صاحب نے جولائی کے اخیر میں اپنی78ویں سالگرہ منائی، ماشاءاللہ وہ 78 برس کے ہو گئے ہیں۔۔کچھ عرصہ سے ان کی صحت قابل رشک نہیں۔اپنے صاحبزادے پرنس بہاول عباس خان عباسی کی الیکشن مہم میں بھی انہوں نے کوئی حصہ نہیں لیا۔۔دعا ہے اللہ تعالی انہیں شفاء کامل عاجل عطا فرمائے آمین
مخالفین تو شاید اس حقیقت کوتسلیم نہ کریں کہ نواب صاحب نے عوامی فلاح وبہبود اور علاقائی مفاد کے لئے بھرپور کوششیں کیں۔جب وہ خود سیاست سے الگ ہو گئے تو انہوں نے نئے چہرے متعارف کروائے۔۔گویا کہ سیاست میں ان کی شخصیت کا یہ اعجاز رہا ہے کہ جیتتا صرف وہی تھا جسے نواب صاحب کی حمایت حاصل ہو جاتی،البتہ جب سے ظلم وجبر کے نئے قواعد متعارف ہوئے ہیں،نادیدہ طاقتوں نے انہیں دیوار سے لگانے کی نامعقول کوششیں کی،جس میں کسی حد تک انہیں کامیابی بھی ملی،جو میں سمجھتا ہوں احسان فراموشی کی انتہاء ہے۔
ہمارا اگلا سفر دھوپ کا سہی ، لیکن
تمہاری چھاؤں میں اب لوٹ کر نہیں آنا
نئے صوبے کے حوالے سے نواب صاحب نے ہمیشہ اپنی مثبت کوششیں جاری رکھیں۔۔البتہ انہوں نے اپنی خاندانی وجاہت و وقار کے باوصف اداروں سے بھیک نہیں مانگی، ان کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ وفاق اور پنجاب نے ہمیشہ بہاول پوریوں کو ان کے حقوق دینے میں بخل وزیادتی سے کام لیا ہے،ستم بالائے ستم یہ کہ حالیہ ایام میں پنجاب گورنمنٹ کا ایک فیصلہ سامنے آیا ہے کہ نواب صاحب کی رہائش گاہ صادق گڑھ پیلس ڈیرہ نواب صاحب کو قومی ورثہ قرار دے کر نواب صاحب اور ان کے خانوادہ کو بے دخل کرنے کا حکم جاری کیا ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سراسر ناانصافی پر مبنی حکم نامہ ہے۔یہ ناانصافی صرف خاندان عباسیہ کے ساتھ نہیں ہو رہی،بلکہ بہاو نگر سے لے کر کوٹ سبزل تک کے لاکھوں کی آبادی کے ساتھ ہو رہی ہے کیوں کہ اس پورے خطے کا صادق گڑھ پیلس سے کم وبیش ڈھائی سو سال کا ایک تعلق ہے یہاں کے لوگ نواب سرصادق محمد خان عباسی مرحوم کی عقیدت میں گندھے ہوئے ہیں،بہاول پور ڈویژن کے باسی صادق گڑھ پیلس کو اپنا مربیانہ مرکز اور سیاست دان اسے اپنا سیاسی پیر خانہ سمجھتے ہیں۔۔۔نواب صاحب اپنی طویل علالت کے پیش نظر اسلام آباد رہائش رکھتے ہیں مگر جب صادق گڑھ پیلس ان کی آمد ہوتی ہے تو یہاں میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔ ۔۔وجہ کیا ہے ؟یہی کہ اس خانوادے کا یہاں کی عوام کے ساتھ جو طویل مدتی رشتہ ہے وہ ہمدردی، مروت،اخلاق اور اسلامی بھائی چارہ سے جڑا ہوا ہے۔۔۔صادق گڑھ پیلس پر قبضہ یہ اس خانوادہ کے ساتھ کھلی زیادتی ہے،یہ ظلم کے ضابطے ہیں،جو اس خاندان پر مسلط کیے جارہے ہیں۔کیا کوئی کسی کے گھر پر بھی قبضہ کرتا ہے اور وہ کوئی معمولی گھر بھی نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی عقیدتوں کا مرکز ہے۔۔ہم صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ صادق گڑھ پیلس کو تحویل میں لئے جانے کے بارے پنجاب گورنمنٹ کا نوٹیفیکیشن کینسل کروائیں اور امیر آف بہاول پور کے احترام کے لئے بیوروکریسی کو بھی ہدایات جاری فرمائیں کہ لوگ جنہیں اپنا روحانی والد سمجھتے ہیں،وہ بھی ان کے اعزاز واکرام کو مقدم رکھیں۔اسی طرح وفاق کا یہ فرض ہے کہ ریاست کے ادغام کے وقت نواب سرصادق مرحوم سے کیے ہوئے وعدے پورے کیے جائیں،۔۔۔نواب صاحب خطہ بہاول پور کے محسن ہیں،وفاق پاکستان کو نواب صاحب کے خاندان کو سروخرو کرنے کے لئے نواب صاحب کی قیادت میں صوبہ بہاول پور یا سرائیکی صوبہ(جنوبی پنجاب) بنا دینا چاہیے۔۔۔بقول شاعر:
عصرِ نو مجھ کو نگاہوں میں چھپا کر رکھ لے
ایک مٹتی ہوئی تہذیب کا سرمایہ ہوں