Advertisements

حج کے روحانی ثمرات

Author : Ahmed Ali Mehmoodi
Advertisements

حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے ۔ یہ ایک مقدس اور عظیم عبادت ہے جو ہر صاحب ِاستطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے ۔ حج ہر سال ذوالحجہ کے مہینے میں مکہ مکرمہ میں ادا کیا جاتا ہے ۔ یہ محض جسمانی سفر نہیں ‘ بلکہ ایک روحانی اور قلبی تجدید کا ذریعہ بھی ہے ۔ یہ انسان کے دل و دماغ ‘ روح اور زندگی میں مکمل تبدیلی کا پیغام ہے ۔ جب ایک مسلمان احرام باندھ کر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوتا ہے ‘ تو اُس کا دل صرف اللہ کی رضا کے لیے دھڑکنے لگتا ہے اور وہ دنیاوی تعلقات ‘ غرور ‘ مال و دولت اور اپنی ذات کی تمام ترجیحات کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔ حج ہمیں عاجزی ‘ اتحاد ‘ قربانی ‘ اور اطاعت کا سبق دیتا ہے ۔ عرفات کا میدان انسان کو اُس کے گناہوں کا احساس دلاتا ہے اور توبہ کے آنسو  بہاکر اُسے ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے ۔ منیٰ کی وادی میں شیطان کو کنکریاں مار کر ہم اپنی زندگی کے شیطانی وسوسوں کو رد کرنے کا عہد کرتے ہیں ۔یہ سفر دراصل ایک نئے انسان کی پیدائش کا عمل ہے

ایسا انسان جو اللہ سے قریب تر ہو ‘ جو اپنے نفس کو پہچان چکا ہو ‘ اور جو دنیا میں امن ‘ محبت اور نیکی کا پیغامبر ہو ۔ حج کے ذریعے ایک مسلمان کی روح پاکیزگی اور قربِ الٰہی کے ایک منفرد تجربے سے گزرتی ہے ۔ اس مضمون میں ہم حج کے چند نمایاں روحانی ثمرات پر روشنی ڈالیں گے ۔ 1.تقویٰ اور صبر کی تربیت  حج ایک عظیم عبادت ہے جو نہ صرف جسمانی مشقت کا تقاضا کرتی ہے بلکہ روحانی تزکیہ اور اخلاقی تربیت کا بھی ذریعہ بنتی ہے ۔ حج کے مختلف مراحل انسان کو تقویٰ ( اللہ کا ڈر اور اطاعت ) اور صبر ( برداشت اور استقامت ) سکھاتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے : ” وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی ” ( سورۃ البقرہ : 197 ) ’’ حج کے سفر میں سب سے بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے ۔ ‘‘ حج ایک ایسا سفر ہے جو صبر ‘ ایثار اور تقویٰ کی حقیقی آزمائش ہے ۔ جب حاجی احرام باندھتا ہے تو وہ بہت سے جائزکاموں سے بھی رک جاتا ہے ۔ یہ تقویٰ کی علامت ہے کہ انسان اللہ کی رضا کے لیے اپنے نفس کی خواہشات کو قابو میں رکھے ۔ ہر حاجی ” لبیک اللھم لبیک ” کہہ کر اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے ‘ جو کہ کامل تقویٰ کا مظہر ہے ۔ مناسک حج : طواف ‘سعی ‘ وقوفِ عرفہ ‘ رمی جماراور قربانی وغیرہ یہ سب اعمال صرف اللہ کی رضا کے لیے کیے جاتے ہیں ‘ جو انسان کو اخلاص ‘ خوفِ خدا اور پرہیزگاری کی طرف لے جاتے ہیں ۔ حج کے دوران کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے ہجوم ‘ تھکن ‘ موسم کی شدت اور محدود سہولیات ۔ ان حالات میں حاجی کو صبر کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا ہوتا ہے ۔ یہی صبر اور برداشت حاجی کی روح کو مضبوط بناتے ہیں اور اُسے عملی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں ۔صفا و مروہ کی سعی سے حاجی حضرت ہاجرہؑ کی قربانی کو یاد کر کے صبر و توکل سیکھتا ہے ۔ وقوف ِعرفات: دھوپ میں کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا ‘ صبر و عاجزی کی بہترین مثال ہے ۔ حج انسان کو سکھاتا ہے کہ زندگی میں اللہ کی رضا کے لیے تقویٰ اور صبر کے ساتھ چلنا چاہیے ۔ یہی صفات ایک مسلمان کی کامیابی کی ضمانت ہیں ۔  2. اللہ کی قربت اور ایمان میں اضافہ  (( عن ابي هريرة ‘ ” ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل ‘  اي العمل افضل ؟ فقال : إيمان بالله ورسولہ‘  قيل : ثم ماذا ؟ قال : الجهاد في سبيل الله ‘قيل : ثم ماذا ؟ قال : حج مبرور )) ( صحيح مسلم : حدیث نمبر : (248 ’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا “ کہا گیا ‘ اس کے بعد کون سا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا “ کہا گیا ‘ پھر کیا ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا :”حج مبرور ۔‏“ حج ایک ایسا عمل ہے جو بندے کو براہِ راست اللہ کے قریب کر دیتا ہے ۔حج کے مناسک بندے کو دنیاوی خواہشات سے دور کر کے مکمل طور پر اللہ کے سامنے جھکنے کی تربیت دیتے ہیں۔ جب ایک مومن احرام باندھ کر دنیاوی وابستگیوں کو چھوڑ دیتا ہے اور لبیک کی صدا بلند کرتا ہے ‘ تو درحقیقت وہ دنیا کی ظاہری زیب و زینت کو چھوڑ کر صرف اپنے رب کی رضا کے لیے نکلتا ہے۔طوافِ کعبہ‘ عرفات میں دعا ‘ مزدلفہ میں قیام ‘ جمرات کی رمی اور قربانی یہ سب اعمال روح کو پاکیزہ اور حاجی کے دل میں اللہ کی محبت کو مزید پختہ اور اس کے ایمان کو تروتازہ کردیتے ہیں ۔ حج کے دوران جو اعمال انجام دیے جاتے ہیں ‘ وہ انسان کو عاجزی ‘ صبر ‘ قربانی ‘ اور تقویٰ کا درس دیتے ہیں ۔ خانہ کعبہ کے طواف سے لے کر صفا و مروہ کی سعی تک ‘ ہر لمحہ بندے کو اپنے رب کی یاد دلاتا ہے ۔ جب حاجی اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے ‘ تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے اُس پر کھول دیتا ہے ۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایمان میں اضافہ محسوس ہوتا ہے ‘ دل نرم ہوتا ہے اور آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں ۔ حج انسان کو اس کی اصل فطرت یعنی بندگی کی طرف واپس لے آتا ہے ۔ اس سفر کے بعد انسان کا دل اللہ کی محبت سے لبریز ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی میں ایک نیا روحانی انقلاب آتا ہے ۔ 2. گناہوں کی معافی اور روحانی پاکیزگی  حج صرف عبادات کا مجموعہ نہیں ‘ بلکہ جو بندہ خلوصِ نیت اور صحیح طریقے سے حج ادا کرتا ہے ‘ اس کے لیے یہ گناہوں کی معافی اور روحانی پاکیزگی کا بھی بہترین ذریعہ ہے ۔

Advertisements

احادیث ِ مبارکہ میں ارشادہے : (( عَنْ  أَبَی  هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ‘قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‘  يَقُولُ : ’’ مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَ لَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ‘‘ )) . ( صحيح البخاري ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ جس نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس دوران فحش بات اور گناہ نہ کیا ‘ وہ (حج کے بعد) ایسا لوٹے گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے ابھی جنا ہو ۔ ‘‘ یعنی حج گناہوں کو ایسے دھو دیتا ہے جیسے کبھی کیے ہی نہ ہوں ۔ (( عن أبي هريرة رضي الله عنه ‘ قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم   : ’’ العمرة إلى العمرة كفارة ما بينهما ‘ والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة ‘‘ . )) ( بخاری و مسلم )  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ ایک عمرہ دوسرے عمرے تک گناہوں کا کفارہ ہے ‘اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے‘ ‘ ۔ ‏‏(( وَعَن عَمْرو بن الْعَاصِ قَال َ قَال َ رَسوْل َ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ’’  وَأَنَّ الْحَجَّ يهدم مَا كَانَ قبله ۔ ‘‘ )) (صحیح مسلم :321) سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ بلاشبہ حج کی ادائیگی سے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔ ‘‘ درج بالا احادیث اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ حج ایک ایسی عبادت ہے جو بندے کے سابقہ گناہوں کو مٹا کر اسے نئی زندگی عطا کرتی ہے ۔ حاجی جب مناسکِ حج ادا کرتا ہے ‘ تو وہ اپنی سابقہ خطاؤں سے توبہ کرتا ہے اور اللہ کے حضور اپنی اصلاح کا عہد کرتا ہے ‘ یوں اُس کی روح گناہوں کے بوجھ سے آزاد ہو کر ہلکی اور پاکیزہ ہو جاتی ہےاور ایسا بندہ جنت کا حق دار بن جاتا ہے ۔ 3. فقر سے نجات  اللہ تعالیٰ حاجی کے حج کی برکت سے اُس کی تنگ دستی ختم کر دیتا ہے اور اُس کے رزق میں برکت عطا فرماتا ہے ۔ (( عن عبد الله ابن مسعود ‘ قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ کَمَا يَنْفِي الْکِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ ‘وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ  . )) (سنن ترمذی : 810 ) سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرا ادا کرو اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے‘ سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے ۔ ‘‘ 4. اللہ کے مہمان  حجاج اللہ کے مہمان ایک نہایت خوبصورت اور بامعنی جملہ ہے جو حج پر جانے والے مسلمانوں کی عظمت اور مرتبے کو بیان کرتا ہے۔ اس فقرے کا مطلب ہے کہ جو مسلمان حج کے لیے جاتے ہیں ‘ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں‘ اور اُن کی میزبانی اللہ تعالیٰ خود کرتا ہے ۔ (( عَنْ ابْنِ عُمَرَ ‘ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ‘  وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ ‘  دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ ‘ وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ ” . ))  ( سنن ابن ماجہ :2893 ) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ‘ حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا مہمان ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا تو انہوں نے حاضری دی ‘ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اُس نے اُنہیں عطا کیا ۔ ‘‘ 5. اللہ کی ضمانت  حاجی اللہ تعالیٰ کی ضمانت میں ہوتا ہے ۔ (( عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ : ثَلاَثَةٌ فِى ضَمَانِ اللهِ -عَزَّ وَجَلَّ : رَجُـلٌ خَـرَجَ إِلَى مَسْـجِـدٍ مِـنْ مَسَاجِدِ اللهِ -عَزَّ وَجَلَّ ‘ وَرَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِى سَبِيلِ اللهِ ‘ وَرَجُلٌ خَرَجَ حَاجًّا ۔ ))  (  الصحیحة للالبانی   : 609 ) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’ تین شخص اللہ كی ضمانت میں ہیں ‘وہ شخص جو اللہ كی مساجدمیں سے كسی مسجد كی طرف نكلا ‘ اور وہ شخص جو اللہ كے راستے میں جہاد كے لیے نكلا اور وہ شخص جو حج كرنے كے لیے نكلا ۔ ‘‘ 6. سفر حج میں موت  حاجی جب سفر حج پر نکلتا ہے اور اسی سفر میں وہ فوت ہوجاتا ہے تو قیامت تک اُس کے حق میں حج کا اجر وثواب لکھا جاتا رہے گا ۔ (( عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ : مَنْ خَرَجَ حَاجًّا فَمَاتَ کَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْحَاجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ‘  وَمَنْ خَرَجَ مُعْتَمِرًا فَمَاتَ ‘ کَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْمُعْتَمِرِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ‘ وَمَنْ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللهِ فَمَاتَ کَتَبَ اللهُ لَهُ أَجْرَ الْغَازِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ . ))  (  المعجم الکبیر للطبرانی: 80 ) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا : ’’ جو شخص حج کرنے کے ارادے سے نکلا اورفوت ہوگیا ‘ قیامت تک اُس کےلیے حج کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا ‘ اور جو شخص عمرہ کرنے کےلیے نکلا اور وفات پا گیا ‘ قیامت تک اُس کےلیے عمرہ کرنے کا ثواب لکھاجائےگا اور جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کےلیے نکلا اوروفات پاگیا تو قیامت تک اُس کےلیے مجاہد کا اجر و ثواب لکھا جائے گا ۔

حاجی کتنا بڑا خوش نصيب انسان ہے کہ اگر دوران حج یا سفر حج میں وفات پاگیا تو روز ِمحشر باری تعالیٰ کے ہاں تلبیہ کہتے ہوئے حاضر ہوگا ۔  (( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ‘ قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ :‏‏‏‏ فَأَوْقَصَتْهُ ‘‏‏‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :‏‏‏‏ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَکَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ ‘  ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ ‘ ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا . ))  ( صحیح بخاری : 1265 ) ’’ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ایک شخص میدان عرفہ میں ( احرام باندھے ہوئے ) کھڑا ہوا تھا کہ اچانک اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے اُسے کچل دیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا : پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دوکپڑوں میں اسے کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ اسے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ اس کا سر چھپاؤ ‘ کیونکہ یہ قیامت کے دن تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا ۔ ‘‘ 7.حج کے بدلے جنت اللہ عزوجل حاجی سے اتنا خوش ہوتا ہے کہ اُسے حج کے بدلے جنت عطا فرماتا ہے ۔ (( عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ : كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ ‘  فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِيرُ ‘ فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ ‘ قَالَ : لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ ‘ وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ ‘ تَعْبُدُ اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا ‘ وَتُقِيمُ الصَّلاَةَ ‘ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ ‘ وَتَصُومُ رَمَضَانَ ‘ وَتَحُجُّ البَيْتَ ))  ( سنن الترمذي : 2616 ) ’’ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ وہ فرماتے ہیں : مَیں ایک سفر میں اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ چلتے ہوئے ایک دن میں آپ سے قریب ہو گیا تو عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے ‘ جو مجھے جنت میں لے جائے اور جہنم سے دور رکھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے اور بے شک یہ عمل اُس شخص کے لیے آسان ہے ‘ جس کے لیے اللہ آسان کر دے ۔ تم اللہ کی عبادت کرو اور اُس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ‘ نماز قائم کرو ‘ زکوٰۃ دو ‘ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو ۔‘ ‘ 9. حج سے محروم خیر سے محروم   جو لوگ صاحب ِثروت ہیں اُنہیں چاہیے کہ حج کریں کیوں کہ جو حج کی بھلائیوں سے محروم ہوگیا ‘وہ خیر سے محروم ہوگیا جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا : (( إن الله يقول : إن عبدا اصححت له جسمه‘ ووسعت عليه في المعيشة ‘ تمضي عليه خمسة اعوام لا يفد إلي لمحروم . ))  ( سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی : 1662 ) ’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مَیں نے اپنے بندے کا جسم تندرست رکھا ‘ اُس کی معیشت میں وسعت پیدا کی ‘ لیکن اس حالت میں پانچ سال بیت گئے اور وہ میری طرف ( حج کے لیے ) نہیں آیا ‘ ایسا آدمی محروم ہے ‘ ایسا آدمی محروم ہے ۔‘ ‘ یہ حدیث سیدنا ابوسعید اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ۔ 10. مساوات اور اخوت کا درس  حج کے دوران تمام حاجی ایک ہی لباس (احرام) پہنتے ہیں ‘جو کہ دو غیر سلے ہوئے سفید کپڑوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ نہ کوئی امیر ہوتا ہے ‘ نہ غریب‘ نہ بادشاہ ‘ نہ فقیر — سب ایک جیسے کپڑوں میں ‘ ایک ہی جگہ ‘ایک جیسے اعمال سرانجام دیتے ہیں ۔

حج ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک انسان کی قدر و قیمت اُس کے تقویٰ سے ہے ‘ نہ کہ مال و دولت یا رنگ ونسل سے ۔ دنیا بھر سے مسلمان حج کے لیے آتے ہیں ‘ مختلف زبانیں بولنے والے ‘ مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے ‘ لیکن ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کیے ‘ ایک ہی دعا مانگتے ہیں۔ اس اجتماع  میں کوئی اجنبیت نہیں ‘ سب ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ یہ منظر عملی طور پر اُمّت ِمسلمہ میں اخوت‘ محبت اور اتحاد کا مظہرہے۔حج ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک اُمّت ہیں ‘ اور ہمارا رب ایک ہے ‘ قبلہ ایک ہے ‘اور دین ایک ہے ۔ اختلافات کو چھوڑ کر ہم اللہ کے حضور ایک ہو جاتے ہیں ۔ حج ہمیں صرف عبادات کا طریقہ ہی نہیں سکھاتا بلکہ ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے — جہاں سب برابر ہوں‘ محبت ہو ‘ اتحاد ہو ‘اور کوئی تفریق نہ ہو ۔ یہی اسلام کا اصل پیغام ہے ۔ 11. شیطان کے خلاف جہاد کا جذبہ  حج صرف ایک عبادت نہیں‘ بلکہ ایک روحانی سفر ہے جس میں انسان اللہ کے قریب ہوتا ہے ‘ نفس کی خواہشات سے لڑتا ہے اور شیطان کے خلاف کھلا اعلانِ جنگ کرتا ہے ۔

 جب شیطان نے حضرت ابراہیم ‘ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہم السلام کو ورغلانے کی کوشش کی ‘ تو اُنہوں نے اُس پر کنکریاں ماریں۔ آج حاجی بھی یہی عمل دہرا کر اپنے ایمان کی تازگی کا اعلان کرتا ہے۔رمیِ جمار ( کنکریاں مارنا ) درحقیقت ایک علامتی عمل ہے جو اس عزم کی تجدید کرتا ہے کہ حاجی زندگی بھر شیطان کے وسوسوں اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے گا ۔ یہ عمل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ شیطان ہر دور میں ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ‘ اور ہم اللہ کی رضا کے لیے اُس پر کنکریاں مار کر اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ عمل اُس کی روح میں تقویٰ اور نیکی کی مضبوطی پیدا کرتا ہے اور اُسے مسلسل شیطان کے خلاف جہاد پر آمادہ کرتا ہے ۔ حج ہمیں سکھاتا ہے کہ شیطان سے نفرت صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے ہونی چاہیے ۔ ہر دن‘ ہر لمحہ ہمیں اپنے نفس اور شیطان کے خلاف جہاد کرنا ہے ‘ تاکہ ہم اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکیں ۔ 12. دنیاوی محبتوں سے بے نیازی  حج صرف ایک عبادت نہیں ‘ یہ عشق و قربانی کا وہ سفر ہے جو انسان کو دنیا کی فانی محبتوں سے نکال کر اللہ کی ابدی محبت سے جوڑ دیتا ہے ۔ جب حاجی احرام باندھتا ہے ‘ تو وہ نہ صرف ظاہری لباس اتارتا ہے‘ بلکہ دل سے ہر دنیاوی تعلق ‘ غرور اور محبت کی چادر بھی اُتارنے کی کوشش کرتا ہے۔عرفات کی وادی میں کھڑے ہو کر جب وہ اپنے رب کے حضور ہاتھ اُٹھاتا ہے ‘ تو دنیا کی ہر محبت ماند پڑ جاتی ہے ‘

حاجی صرف اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اور اُس کی مدد کا طلب گار ہوتا ہے ۔ یہ تجربہ اُس کے دل میں اللہ کی محبت کو مزید بڑھاتا ہے اور دنیاوی لذتوں اور خواہشات سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے ‘ اور دل سے صرف ایک صدا بلند ہوتی ہے : لبیک اللھم لبیک یہی حج کا حقیقی پیغام ہے — ‘ دنیاوی محبتوں سے بے نیازی اور رب سے سچی وابستگی ۔ 13. دعاؤں کی قبولیت اور قربِ الٰہی کا احساس  حج ایک عظیم عبادت ہے جو نہ صرف ظاہری اعمال پر مشتمل ہے بلکہ دل کی گہرائیوں سے اللہ کے قرب اور دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بھی بنتا ہے ۔حج کے دوران خاص طور پر عرفات کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے کا وعدہ فرماتا ہے۔ عرفات کا دن ’’ یومِ دعا ‘‘ کہلاتا ہے کیونکہ یہ وہ لمحہ ہے جب حاجی اللہ کے حضور عاجزی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ‘ اور اُن کی دعائیں شرفِ قبولیت پاتی ہیں ۔ یہ روحانی تجربہ حاجی کو یہ احساس دلاتا ہے کہ اللہ اُس کے بہت قریب ہے اور وہ اُس کی دعا سن رہا ہے ۔ اس احساس سے حاجی کا دل اطمینان اور سکون پاتا ہے ۔ 14.نئی زندگی کا آغاز  جب ایک مسلمان حج کے عظیم سفر سے گناہوں سے پاک ہو کرواپس آتا ہے ‘ تو اُس کے دل و دماغ میں ایک نئی روشنی ‘ ایک نئی امید ‘ اور اللہ کے قریب ہونے کا ایک نیا احساس ہوتا ہے ۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب وہ اپنی زندگی کو گناہوں سے پاک کر کے ایک نئی راہ پر ڈالنے کا عزم کرتا ہے اور یہی حج کا سب سے بڑا روحانی ثمر ہے