Advertisements

زیادہ گندم اُگاؤ مہم: غذائی تحفظ اور معاشی استحکام کی سمت ایک اہم قدم

Advertisements

اداریہ — 25 نومبر 2025

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے وژن کے تحت صوبے میں گندم کی پیداوار بڑھانے کے لیے جاری کوششیں عملی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ بہاولپور ڈویژن میں کمشنر مسرت جبیں کی سربراہی میں ہونے والا اجلاس اس حوالے سے نہایت اہم پیش رفت ہے۔ اجلاس میں محکمہ زراعت توسیع، ریونیو، ایریگیشن اور تینوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے شرکت کی اور کاشت کے اہداف کے حصول کے لیے مربوط حکمت عملی کا جائزہ لیا۔

Advertisements

ملکی غذائی ضرورتوں کے پیش نظر گندم کی کاشت میں اضافہ کرنے کا فیصلہ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ قومی معیشت کے لیے انتہائی سودمند بھی ہے۔ پاکستان زراعت پر انحصار کرنے والا ملک ہے اور گندم ہماری خوراک کا بنیادی جزو ہے۔ گزشتہ برسوں میں بڑھتی ہوئی درآمدی ضروریات نے نہ صرف ملکی خزانے پر بوجھ ڈالا بلکہ غذائی تحفظ کے حوالے سے بھی شدید بے چینی پیدا کی۔ ایسے میں "زیادہ گندم اُگاؤ” مہم قوم کے وسیع تر مفاد میں ایک بروقت اقدام ہے۔

رپورٹ کے مطابق بہاولپور ڈویژن میں اب تک 23 لاکھ 96 ہزار ایکڑ رقبے پر گندم کی کاشت ہو چکی ہے جبکہ ٹارگٹ 26 لاکھ 83 ہزار ایکڑ مقرر ہے۔ یہ پیش رفت قابلِ تعریف ضرور ہے، لیکن باقی ماندہ ہدف کا بروقت حصول حکومتی اداروں کی مسلسل نگرانی اور فیلڈ میں متحرک کردار کا تقاضا کرتا ہے۔ کمشنر مسرت جبیں کی جانب سے ڈپٹی کمشنرز کو جاری کردہ واضح ہدایات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ ہر سطح پر کوتاہی سے گریز کیا جائے اور کسانوں کو درپیش مسائل فوری بنیادوں پر حل کیے جائیں۔

ایک اہم پہلو جس پر اجلاس میں زور دیا گیا وہ یہ ہے کہ سرکاری و نجی زمینوں پر زیادہ سے زیادہ رقبہ زیرِ کاشت لانے کے لیے کسانوں کو نہ صرف آگاہی دی جائے بلکہ عملی مدد بھی فراہم کی جائے۔ محکمہ زراعت توسیع کے افسران، عملہ اور زرعی گریجویٹس کی فیلڈ میں موجودگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کسانوں کو سرٹیفائیڈ بیجوں کے استعمال، کھادوں کے متوازن استعمال اور جدید طرزِ کاشت کے عملی طریقے سکھانا ہی اس مہم کی کامیابی کی بنیاد ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ ضلع میں بیج اور کھاد وافر مقدار میں موجود ہیں اور اس کا بروقت استعمال ممکن بنایا جا رہا ہے۔

مزید یہ کہ چولستان جیسے خطوں میں گندم کی کاشت بڑھانا اس لیے ضروری ہے کہ وہاں کی وسیع غیر آباد اراضی ایک بڑا زرعی اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر جدید آبپاشی تکنیک اور حکومتی تعاون کے ساتھ یہ علاقہ زیرِ کاشت آ جائے تو نہ صرف مقامی سطح پر معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گا بلکہ مجموعی زرعی پیداوار میں بھی نمایاں بہتری آئے گی۔

پاکستان کو اس وقت سب سے بڑے چیلنج غذائی قلت، درآمدی انحصار اور زرعی پیداوار میں کمی کا سامنا ہے۔ گندم کے شعبے میں بہتری ان تمام مسائل کے حل کی بنیادی شرط ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فیلڈ افسران کی کارکردگی پر سخت نگرانی رکھی جائے، کسانوں کو سبسڈی اور حکومتی مراعات سے متعلق مکمل معلومات فراہم کی جائیں اور انہیں عملی تربیت دی جائے۔

اگر یہ مہم سنجیدگی، مربوط حکمت عملی اور شفافیت کے ساتھ جاری رہی تو آنے والے برسوں میں پنجاب نہ صرف اپنی غذائی ضرورتیں خود پوری کرنے کے قابل ہو گا بلکہ گندم کے شعبے میں نئے ریکارڈ بھی قائم کر سکتا ہے۔ یہ مہم پنجاب کی زرعی خوشحالی، دیہی ترقی اور معاشی استحکام کی سمت ایک مضبوط قدم ہے—جسے مسلسل سپورٹ اور سنجیدہ عملدرآمد کی ضرورت ہے۔