غزہ امن منصوبہ: حماس اور ٹرمپ کے بیانات سے نئی امید
2025اداریہ —–5 اکتوبر
غزہ گزشتہ دو برسوں
سے مسلسل تباہی اور خونریزی کا شکار ہے۔ اسرائیلی بمباری اور فوجی کارروائیوں نے نہ صرف ہزاروں بے گناہ فلسطینی جانوں کو نگل لیا بلکہ لاکھوں افراد کو بے گھر بھی کر دیا ہے۔ عالمی برادری کی بارہا اپیلوں کے باوجود تاحال مستقل جنگ بندی کا کوئی راستہ نکلتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ تاہم اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ 20 نکاتی امن منصوبے پر حماس کی آمادگی نے صورتحال کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔
حماس نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ اگر اسرائیل اپنی فوج کو غزہ سے مکمل طور پر واپس بلا لے اور بمباری کا سلسلہ ختم کرے تو وہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں—خواہ وہ زندہ ہوں یا جاں بحق—کی رہائی کے لیے تیار ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تنظیم نے غزہ کی انتظامیہ کو ایک غیر جانبدار اور ماہر فلسطینی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل عبوری ادارے کے حوالے کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی ہے، بشرطیکہ یہ ادارہ قومی اتفاق رائے اور عرب و اسلامی حمایت کی بنیاد پر قائم ہو۔ یہ اعلان ماضی کے سخت گیر موقف سے ایک واضح تبدیلی ہے، جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ حماس خطے میں پائیدار امن کے لیے سیاسی لچک دکھانے پر تیار ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے بیان کو حوصلہ افزا قرار دیا اور اسرائیل پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر غزہ پر بمباری بند کرے تاکہ یرغمالیوں کی محفوظ رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔
ٹرمپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ مسئلہ صرف غزہ تک محدود نہیں بلکہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کا ایک نادر موقع ہے۔ اگر واقعی فریقین سنجیدگی سے آگے بڑھتے ہیں تو یہ خطے میں ایک نئے دور کے آغاز کی نوید ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے حماس کو معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے ایک ڈیڈ لائن دی تھی اور خبردار کیا تھا کہ اگر تنظیم نے امن منصوبہ قبول نہ کیا تو اسے سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ اس تناظر میں حماس کی جانب سے امن منصوبے پر آمادگی عالمی دباؤ کے اثرات کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ تاہم، یہ معاملہ صرف دباؤ یا وقت کی قید سے زیادہ اہم ہے؛ اصل سوال یہ ہے کہ آیا فریقین ایک جامع اور دیرپا حل کی طرف بڑھ سکتے ہیں یا نہیں۔
فلسطینی عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے آزادی، خودمختاری اور بنیادی انسانی حقوق کے منتظر ہیں۔ حماس کے تازہ موقف نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ اگر عالمی برادری اور فلسطینی دھڑے ایک متحدہ فریم ورک تشکیل دیں، جس میں تمام فریقین شامل ہوں اور فیصلے بین الاقوامی قوانین و قراردادوں کی روشنی میں کیے جائیں، تو ایک پائیدار امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ بصورت دیگر یہ منصوبہ بھی ماضی کی ناکام کوششوں کی طرح تاریخ کے صفحات میں دفن ہو جائے گا۔ اس وقت عالمی برادری، بالخصوص امریکہ، عرب ممالک اور یورپی اتحادیوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ ہونے دیں۔ اسرائیل کو بھی یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ فوجی طاقت اور مسلسل بمباری سے امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے برعکس ایک منصفانہ اور قابلِ قبول سیاسی حل ہی خطے میں دیرپا استحکام لا سکتا ہے۔
غزہ کے لاکھوں عوام، جو جنگ، بھوک اور بے گھری کے عذاب سہہ رہے ہیں، اس وقت ایک روشن امید کے منتظر ہیں۔ اگر اس موقع کو سنجیدگی اور دیانت داری سے استعمال کیا گیا تو شاید آنے والی نسلیں ایک پرامن مشرقِ وسطیٰ دیکھ سکیں۔ بصورت دیگر یہ ایک اور ضائع شدہ موقع ثابت ہوگا، جس کے نتائج نہ صرف فلسطینیوں بلکہ پورے خطے کو بھگتنا ہوں گے

