غزہ جنگ بندی منصوبہ اور خطے کے نئے امکانات
اداریہ — یکم اکتوبر 2025
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ روز وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے ہمراہ ایک اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے 20 نکاتی غزہ امن و جنگ بندی منصوبہ پیش کیا، جسے انہوں نے مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے "تاریخی دن” قرار دیا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ عرب اور مسلم رہنماؤں کی تائید حاصل کرچکے ہیں جن میں ترکیہ، انڈونیشیا، پاکستان کی قیادت اور خطے کے دیگر اہم ممالک شامل ہیں۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ غزہ امن معاہدہ اب بہت قریب ہے اور اگر یہ طے پا گیا تو مشرق وسطیٰ کے مستقبل کے استحکام کی بنیاد ڈالی جا سکتی ہے۔
ٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر حماس اس معاہدے کو قبول کرتی ہے تو خطے میں نئی راہیں کھلیں گی، لیکن اگر اس نے اسے رد کیا تو امریکا اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کرے گا تاکہ حماس کی عسکری صلاحیت اور سیاسی اثرورسوخ ختم کیا جا سکے۔ صدر ٹرمپ نے مزید اعلان کیا کہ غزہ میں ایک نئی حکومت تشکیل دی جائے گی جو فلسطینیوں کے نمائندوں اور دنیا بھر کے ماہرین پر مشتمل ہوگی جبکہ بین الاقوامی امن فورس بھی تعینات کی جائے گی۔ یہ سب اقدامات اس بڑے وژن کا حصہ ہیں جس کے تحت مشرق وسطیٰ میں دیرپا امن قائم کرنا مقصود ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا کہ وہ ٹرمپ کے امن منصوبے کی مکمل حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ اسرائیل کے جنگی اہداف سے مطابقت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق اس منصوبے کے ذریعے یرغمالیوں کی رہائی یقینی بنائی جائے گی، حماس کی عسکری صلاحیت ختم ہوگی اور غزہ کو اسرائیل کے خلاف مستقبل میں کسی خطرے کا ذریعہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے خبردار کیا کہ اگر حماس نے معاہدہ مسترد کیا تو "اسرائیل اپنا کام مکمل کرے گا، چاہے آسان راستے سے یا مشکل راستے سے۔”
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صدر ٹرمپ نے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا نام بھی منصوبے میں شامل ہونے والے شخصیات میں لیا اور کہا کہ آئندہ دنوں میں مزید شخصیات کے نام سامنے آئیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اپنے اس منصوبے کو زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی حمایت دلوانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ اس پر عمل درآمد کے لیے سیاسی اور سفارتی وزن بڑھایا جا سکے۔
پاکستان کی سطح پر بھی اس منصوبے کے اثرات زیرِ بحث ہیں۔ اسلام آباد میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے نیوز کانفرنس میں کہا کہ انڈونیشیا نے 20 ہزار فوجی فلسطین بھیجنے کی پیشکش کی ہے اور امید ظاہر کی کہ پاکستان بھی جلد اس حوالے سے فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان کی پالیسی بالکل دوٹوک ہے: فلسطین سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا اور فلسطینی عوام کو ان کے جائز حقوق کی فراہمی۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کی جانب سے جاری 21 نکاتی دستاویز کو پاکستان نے من و عن تسلیم نہیں کیا بلکہ اس پر اپنی ترامیم بھی جمع کرائی ہیں تاکہ فلسطینی عوام کے نقطہ نظر کو زیادہ بہتر طور پر شامل کیا جا سکے۔
یہ سب پیش رفت ہمیں کئی اہم سوالات پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ کیا فلسطینی عوام کو واقعی اس امن منصوبے میں مرکزی حیثیت دی گئی ہے یا یہ معاہدہ بڑی طاقتوں کے ایجنڈے کے مطابق نافذ کیا جا رہا ہے؟ کیا ایک ایسی عبوری حکومت جو بین الاقوامی ماہرین کے زیرِ اثر ہو اور جس میں مقامی نمائندگی محدود ہو، فلسطینی عوام کے زخموں کا مداوا کر سکے گی؟ اسی طرح ایک بین الاقوامی امن فورس کی موجودگی صرف اسی وقت قابل قبول ہوگی جب اس کا مینڈیٹ شفاف ہو، غیر جانب دار ہو اور مقامی قیادت کی تائید حاصل کرے۔ بصورت دیگر یہ امن فورس ایک نئی کشیدگی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرچہ امن منصوبے میں امکانات موجود ہیں لیکن اس کے خطرات بھی کم نہیں۔ صدر ٹرمپ کا یہ اعلان کہ اگر حماس نے انکار کیا تو اسرائیل کو امریکا کی مکمل حمایت حاصل ہوگی، معاہدے کو ایک الٹی میٹم کی شکل دے دیتا ہے۔ یہ طرزِ عمل امن قائم کرنے کے بجائے مزید تصادم کو ہوا دے سکتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ عالمی برادری، اقوام متحدہ اور علاقائی طاقتیں منصوبے کو صرف فوجی یا سیاسی مفاد کی عینک سے دیکھنے کے بجائے انسانی حقوق، انصاف اور خود ارادیت کے اصولوں کو مرکزی حیثیت دیں۔
پاکستان کے لیے اس موقع پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں مستقل مزاجی اور اصولی موقف برقرار رکھے۔ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت، اسرائیلی جارحیت کے خاتمے اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری ہی وہ بنیاد ہے جس پر ہماری پالیسی استوار ہونی چاہیے۔ اگر پاکستان اپنے اقدامات میں شفافیت، توازن اور اصولی استقامت دکھائے تو نہ صرف ہماری پالیسی خطے کے امن میں مثبت کردار ادا کر سکتی ہے بلکہ عالمی برادری میں ہمارے مؤقف کو تقویت بھی ملے گی۔

