Advertisements

پاکستان سیلاب کی لپیٹ میں: پنجاب میں تباہی، اب ڈیموں کی تعمیر ناگزیر

Advertisements

اداریہ – 30 اگست 2025


پنجاب اس وقت شدید ترین سیلابی تباہی کا شکار ہے۔ دریائے چناب، راوی اور ستلج میں طغیانی کے باعث 1769 دیہات زیر آب آگئے ہیں، 14 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ 28 قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ مکانات، مویشی، فصلیں اور سڑکیں سیلابی ریلوں کی نذر ہو گئے ہیں۔ ہر سال یہی المناک منظر دہرایا جاتا ہے، کیونکہ ہم پانی کو محفوظ کرنے اور سیلابی خطرات سے بچنے کے لیے بنیادی ڈھانچہ قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

Advertisements

پاکستان کی معیشت اور معاشرت بار بار اسی سوال کا سامنا کرتی ہے: کیا ہم ہمیشہ امداد کے انتظار میں رہیں گے یا پھر اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں گے؟ حل بالکل واضح ہے—ڈیموں کی تعمیر۔ بڑے ڈیم جہاں ممکن ہوں وہاں مکمل کیے جائیں اور چھوٹے و درمیانے درجے کے ہزاروں ڈیم ضلع اور تحصیل کی سطح پر تعمیر کیے جائیں تاکہ بارش اور سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے۔

دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم جیسے قومی منصوبے سیاسی تنازعات یا فنڈز کی کمی کی بھینٹ نہیں چڑھنے چاہئیں۔ ان کی بروقت تکمیل ناگزیر ہے۔ اسی طرح دریائی کناروں پر بند مضبوط کیے جائیں، بیراجوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کیا جائے، اور چھوٹے آبی ذخائر و چیک ڈیم جنوبی پنجاب اور پہاڑی ندی نالوں میں ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کیے جائیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف سیلابی ریلے روکے جا سکیں گے بلکہ زیر زمین پانی کی سطح بھی بہتر ہو گی اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔

سیلابی پانی کی تباہی نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ یہ مسئلہ محض قدرتی آفت نہیں بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ حکومت، صوبے، ادارے اور عوام سب کو ایک صفحے پر آنا ہوگا۔ سیاسی اختلافات اور الزام تراشی کی بجائے مشترکہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہم نے ڈیموں اور جدید واٹر مینجمنٹ سسٹم کی تعمیر شروع نہ کی تو آنے والی نسلوں کو بھی یہی کربناک مناظر دیکھنا پڑیں گے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان اب صرف وقتی ریلیف پر اکتفا نہ کرے بلکہ ایک جامع اور طویل المیعاد آبی حکمت عملی بنائے جس کا مرکز ڈیموں کی بروقت تعمیر اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے بچاؤ ہو۔ سیلاب کی یہ تباہی ایک انتباہ ہے—اب بھی اگر ہم نے سبق نہ سیکھا تو آنے والی آفات ہمیں مزید کمزور کر دیں گی۔