Advertisements

سیلاب و ماحولیاتی تبدیلی: قومی پالیسی کی ضرورت 

Advertisements

اداریہ— 9 ستمبر 2025‎

پاکستان ایک بار پھر تباہ کن سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ جنوبی پنجاب کے وسیع علاقے زیر آب آچکے ہیں، لاکھوں افراد اور مویشی محفوظ مقامات پر منتقل کیے جا چکے ہیں جبکہ کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے خوراک کا بحران شدت اختیار کر رہا ہے۔ یہ المیہ صرف ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ماحولیاتی تبدیلی، ناقص منصوبہ بندی اور حکومتی عدم تیاری کا نتیجہ بھی ہے۔

Advertisements

یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ سیلابی پانی پر کسی کا اختیار نہیں، لیکن حفاظتی انتظامات، پیشگی منصوبہ بندی اور پائیدار حکمت عملی ہر حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ افسوس کہ پاکستان میں سیلابی نقصانات کے بعد شور مچتا ہے، وقتی ریلیف پیکجز دیے جاتے ہیں اور پھر معاملہ بھلا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال عوام اسی اذیت ناک صورتحال سے گزرتے ہیں۔

سیلاب نے صرف انسانی جانیں ہی نہیں لیں بلکہ زرعی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ لاکھوں ایکڑ رقبہ متاثر ہونے کے باعث دالیں اور سبزیاں مہنگی ہوگئیں ہیں، جس سے عام آدمی کی مشکلات کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ مزید برآں، کھڑا پانی ڈینگی اور دیگر وبائی امراض کو جنم دے رہا ہے، جو متاثرین کی تکالیف میں اضافہ کرے گا۔

اس پس منظر میں سب سے بڑی ضرورت ایک جامع قومی ماحولیاتی اور آبی پالیسی کی ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، مگر ہمارے پاس مؤثر حکمت عملی کا فقدان ہے۔ وقتی اقدامات کافی نہیں، بلکہ مستقل بنیادوں پر ڈیموں کی تعمیر، دریاؤں کے کناروں پر حفاظتی پشتوں کی مضبوطی، نکاسی آب کے نظام کی بحالی اور زرعی پالیسی میں تبدیلی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ عوام میں شعور بیدار کیا جائے کہ سیلاب کوئی تفریح یا تماشہ نہیں بلکہ ایک مہلک خطرہ ہے۔ بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر سیلابی پانی میں "موج مستی” کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جو اس سانحے کی سنگینی کو کم کرتے ہیں۔ ریاستی اداروں اور عوام دونوں کو اس خطرے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔

پاکستان کو اب مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ سیلاب اور ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک قومی اتفاق رائے، مربوط پالیسی اور طویل المدتی اقدامات وقت کی پکار ہیں۔ ورنہ ہر سال لاکھوں انسانوں اور اربوں روپے کی معیشت کو پانی بہا لے جائے گا۔