Advertisements

سیلاب زدگان اور صحت کا بحران: وبائی امراض کے بڑھتے خطرات

Advertisements

 اداریہ —- 25 ستمبر 2025

جنوبی پنجاب اور ملک کے دیگر سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں افراد آج بھی بے گھر ہیں۔ یہ لوگ عارضی کیمپوں، اسکولوں اور سڑک کنارے کھلے مقامات پر زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔ خوراک کی کمی، صاف پانی کی عدم فراہمی اور صفائی کے ناقص انتظامات ان کی مشکلات کو کئی گنا بڑھا رہے ہیں۔ اس صورت حال نے صحت کا ایک نیا بحران جنم دیا ہے، جس کے نتیجے میں ہیضہ، ڈینگی اور ملیریا جیسے خطرناک امراض تیزی سے پھیلنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

Advertisements

سیلاب کے باعث نہ صرف پینے کے پانی کے ذرائع آلودہ ہوئے ہیں بلکہ مچھروں کی افزائش میں بھی خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ بچوں اور خواتین میں دست و اسہال، پیٹ کے امراض اور جلدی بیماریوں کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ متاثرہ کیمپوں میں میڈیکل سہولیات ناکافی ہیں اور دستیاب طبی عملہ بھی وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ اگر بروقت اور مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے دنوں میں صورتحال وبائی صورت اختیار کر سکتی ہے، جس سے اموات اور بدترین انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو ادارے اپنی بساط کے مطابق امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، لیکن زمینی حقائق اس بات کے متقاضی ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر ایمرجنسی بنیادوں پر صحت کے شعبے کو فعال کریں۔ موبائل میڈیکل یونٹس قائم کیے جائیں، ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں بھیجی جائیں، اینٹی ملیریا اسپرے مہمات چلائی جائیں اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

بین الاقوامی اداروں اور مقامی فلاحی تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ اس وقت کی سنگین صورتحال کو نظرانداز نہ کریں اور متاثرہ آبادی کو فوری طور پر طبی امداد، ادویات اور ویکسین کی فراہمی یقینی بنائیں۔ صحت عامہ کے اس بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت، سول سوسائٹی اور عوامی نمائندوں کو ایک مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔

پاکستان پہلے ہی سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کا سامنا کر رہا ہے۔ اگر اس کے بعد وبائی امراض نے جنم لیا تو یہ قومی معیشت اور سماج کے لیے ایک اور کمر توڑ دھچکا ہوگا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہی صحت عامہ کے اس خطرے کو سنجیدگی سے لیا جائے، تاکہ سیلاب متاثرین کو ایک نئے بحران سے بچایا جا سکے