جنوبی پنجاب کا سیلابی بحران اور بحالی کی ضرورت
اداریہ – 24 ستمبر 2025
جنوبی پنجاب رواں مون سون میں ایک بار پھر تباہ کن سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ ضلع مظفرگڑھ کی تحصیل علی پور اور ضلع ملتان کی تحصیل جلالپورپیروالہ سب سے زیادہ متاثر ہوئیں جہاں 80 فیصد علاقہ پانی میں ڈوب کر برباد ہو گیا۔ کھڑی فصلیں، رہائشی مکانات اور بنیادی ڈھانچہ شدید متاثر ہوا ہے۔ ان دونوں تحصیلوں میں زندگی کا پہیہ مکمل طور پر رُک چکا ہے اور لاکھوں لوگ مشکلات سے دوچار ہیں، اس لیے حکومت کو خصوصی طور پر ان علاقوں پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔
ضلع ملتان کی تحصیل شجاع آباد اور ضلع بہاولپور کی تحصیل احمدپورشرقیہ بھی شدید متاثر ہوئیں۔ احمدپور شرقیہ میں 36 مواضعات زیرِ آب آ گئے، اور چونکہ ایک موضع کئی دیہات پر مشتمل ہوتا ہے، اس لیے تباہ شدہ آبادیوں کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ نتیجتاً ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے، کھڑی فصلیں برباد ہو گئیں اور مکانات کھنڈرات میں بدل گئے۔
نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے چیئرمین عرفان علی کاٹھیا کے مطابق پنجاب میں مجموعی طور پر 47 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے، 22 لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، تین لاکھ کچے اور 83 ہزار پکے مکانات کو نقصان پہنچا جبکہ 27 اضلاع کسی نہ کسی درجے میں سیلاب سے متاثر ہوئے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے متاثرین کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے تحت جزوی متاثرہ گھروں کے لیے پانچ لاکھ اور مکمل طور پر تباہ شدہ گھروں کے لیے دس لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ اسی طرح دودھ دینے والی بھینس کے لیے پانچ لاکھ، دیگر جانوروں کے لیے ڈیڑھ سے تین لاکھ روپے اور تباہ شدہ فصلوں کے لیے فی ایکڑ بیس ہزار روپے ادا کیے جائیں گے۔ یہ اقدامات یقیناً متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنے میں مددگار ثابت ہوں گے، تاہم اصل امتحان اس امداد کی شفاف اور بروقت فراہمی ہے۔
پرنس بہاول عباس خان عباسی، ولی عہد امیر آف بہاولپور نے درست طور پر توجہ دلائی ہے کہ احمدپور شرقیہ کو فوری طور پر آفت زدہ قرار دیا جائے۔ ان کے مطابق صرف اسی تحصیل میں 36 مواضعات بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ہزاروں ایکڑ اراضی اور رہائشی مکانات تباہ ہوئے ہیں اور لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ متاثرہ عوام کی مکمل بحالی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں اور حکومتی سروے میں کسی قسم کی تخصیص نہ ہو۔
این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار اور ماہرین موسمیات کی پیش گوئیوں کے مطابق آئندہ مون سون سیزن میں بارشیں اس برس سے بھی اٹھائیس فیصد زیادہ ہو سکتی ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وقتی ریلیف کے ساتھ ساتھ پائیدار حکمت عملی بھی اپنائی جائے۔ مضبوط حفاظتی بند، چھوٹے ڈیموں کی تعمیر، آبی گزرگاہوں کی صفائی اور مقامی سطح پر کمیونٹی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے نظام کو فعال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے غیر متوقع نتائج سے بچنا ممکن نہیں، تاہم سنجیدہ اور بروقت اقدامات کے ذریعے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ اگر آج منصوبہ بندی نہ کی گئی تو جنوبی پنجاب کے یہ علاقے ہر سال اسی طرح بربادی کی نئی داستانیں رقم کرتے رہیں گے

