فتنہ قادیانیت کی ابتداء اور انجام

Fitnah-e-Qadianiat

تحریر و ترتیب: حکیم محمد حسنین چوہان

اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے بعد لارڈ کلائیو لائیڈ کی سربراہی میں ایک وفد ہندوستان حکومت برطانیہ نے بھیجا جس کا مقصد اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے اسباب تلاش کرنا اور اس کا سدباب کرنا تھا اس میں حکومت برطانیہ کے بڑے تھنک ٹینک شامل تھے اور ان میں پوپ کا ایک مذہبی نمائندہ بندہ اسحاق روفین نامی پادری بھی شامل تھا جو لندن کا سب سے بڑا پادری تھا جب یہ وفد ہندوستان آیا تو انہوں نے اپنا کام شروع کیا اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کی وجوہات تلاش کی تو ان کو جو سب سے بڑی وجہ ملی اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی کے حوالے سے وہ مسلمان قوم اور ان کا جذبہ جہاد تھا سفارشات میں انہوں نے لکھا برصغیر پاک و ہند میں مسلمان قوم کے اندر جب تک جذبہ جہاد موجود ہے ہندوستان میں برطانوی سامراج کو ہمیشہ خطرہ رہے گا اس جذبہ جہاد کو ختم نہیں کیا جاسکتا وائسرائے ہند نے اسی وفد کی موجودگی میں اپنے مذہبی ذمہ داروں کو اکٹھا کیا کہ اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے سب نے زور دیا کہ کسی طریقے سے مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد ختم کردیا جائے ڈیلیگیشن میں موجود لندن کے سب سے بڑے پوپ کے نمائندے نے کہا کہ مسلمانوں میں جہاد کا حکم مسلمانوں کے نبی حضرت محمد صلی اللہ وسلم نے ان کو دیا ہے نبی کے فرمان کو نبی کے فرمان سے کاٹ دی جاسکتی ہے مسلمانوں میں جھوٹا نبی پیدا کیا جائے اور وہ جہاد کو ختم کرنے کا اعلان کردے تو اس کے بغیر کوئی مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں اب سوال یہ اٹھا کہ ہندوستان میں کس علاقے سے جھوٹے نبی کو ابھارا جائے اسی پادری نے مشورہ دیا کیا حال ہی میں پنجاب کے اندر ایک نیا مسلک سکھ قوم ظہور پذیر ہوا ہے جو پنجاب میں بڑی تیزی سے فروغ پذیر ہوا ہے اسلئے پنجاب کی سرزمین چھوٹے نبی اور مسلک کو پھیلانے کے لیے زرخیز ہے اس لئے پنجاب کے علاقے میں جھوٹا نبی پیدا کیا جائے اور اس کے ذریعے جذبہ جہاد کو ختم کروایا جائے اس سلسلےمیں برطانوی انٹیلی جنس نے نے پنجاب کے کمشنر آفس کے سپریڈنٹ مرزا غلام احمد قادیانی کو اس مقصد کے لیے اپنا آلہ کار بنایا اور اس کے ساتھ اس کا نائب حکیم نورالدین کو بنایا حکیم نور الدین قرآن دان عملیات کا ماہر جنات کا عامل تھا تعویذ گنڈے اور جادو کرنا اس عمل میں وہ ماہر تھا اس نے قرآن کی تفسیر بھی لکھی ہوئی تھی اور وہ اپنے علاقے کے تمام مدارس اور علاقے کے دوسرے مدارس بھی گیا میری تفسیر پڑھائی جائے مگر کسی مدارس نے اس کے لچھن دیکھتے ہوئے اخلاص سے عاری بندہ دیکھتے ہوئے اس کی تفسیر پڑھانے سے انکار کر دیا بڑا مایوس تھا بے روزگار بھی تھا انگریزوں کے ہتھے چڑھ گیا اور اس کو مرزا غلام احمد قادیانی کا ساتھی بنا دیا حکیم نورالدین نے شرط رکھی کہ مجھے قادیانی مسلک میں نائب کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے جس پر اس کا مطالبہ مان لیا گیا اور پھر ان دونوں فراڈیوں نے علما کا روپ دھار کر تبلیغ شروع کی اور تبلیغی جلسے کرنے شروع کر دیے تاکہ لوگوں میں اعتماد حاصل کر سکیں مسلمانوں کا ذہن بنانے کے لیے اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی تبصرے اور جھوٹی تاویل پیش کی جو مسلک اسلام کے خلاف تھے پھر اس نے آہستہ آہستہ ظلی نبوت کا دعوی کیا اور آخر میں خود نبی بننے کا دعویٰ دائر کر دیا اور حکم جاری کیا میری امت کے لوگ جہاد ختم کر دیں جہاد کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے انگریز حکومت ہماری مہربان ہے جو آدمی اس کے دعوے کو جھٹلاتا یا اس سے بحث کرتا مناظرہ کرتا حکیم نورالدین اس کو آپنے جنات کے ذریعے یا جادو کے ذریعے اس کو مغلوب کر دیتا اور مرزا غلام احمد قادیانی کا مسلک پنجاب کے اندر پھیلتا گیا یہاں پر بھی مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف مناظر ہوتے وہاں حکیم نورالدین کے جنات جادو ٹونا مرزا غلام احمد قادیانی کی مدد کے لئے حاضر ہوتا ہے اسی اثنا میں پنجاب کے لوگ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑہ شریف رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور غلام احمد قادیانی کی تمام کارستانیاں عرض کی اور انکو مناظرہ کے لئے دعوت دی حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ ان لوگوں کے ساتھ قادیان میں آئے اور غلام احمد قادیانی کے ساتھ مناظرہ کیا آپ نے دیکھا کہ مناظرہ میں مرزا غلام احمد قادیانی کے ساتھ پانچ عدد جنات کھڑے ہیں حضرت سید پیر مہر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے قہر آلود نظروں سے جنات کو دیکھا جنات غلام احمد قادیانی کو چھوڑ کر بھاگ گئے پھر حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ غلام احمد قادیانی کے سامنے مناظرے میں اس کو جھوٹا ثابت کیا اور خود غلام احمد قادیانی مناظرہ سے بھاگ گیا پھر اکثر جگہوں پر جہاں قادیانی کا جلسہ ہوتا حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب پہنچ جاتے اور اس کے خوب لتے لیتے جس کے بعد غلام احمد قادیانی نے اپنی تحریک کو خفیہ بنا لیا 1931کے اندر احمد پور شرقیہ کی عدالت کے اندر محترمہ عائشہ نامی خاتون نے ایک دعویٰ دائر کیا تنسیخ نکاح کا میرا خاوند جو ہے وہ قادیانی عقائد رکھتا ہے میں اس کے نکاح میں نہیں رہنا چاہتی ہوں مجھے طلاق دلوائی جائے احمد پور میں یہ مقدمہ دو سال تک چلتا رہا مگر چونکہ یہ مذہبی معاملہ تھا عدالت کے اختیار میں نہیں تھا تو اس لیے انہوں نے بہاولپور شیشن کورٹ میں مقدمہ بھیج دیا جس کی حیثیت اس وقت ریاست بہاولپور میں ہائیکورٹ کے برابر تھی جب یہ بہاولپور شیشن کورٹ میں یہ مقدمہ پیش ہوا ریاست بہاول پور کو بھی فریق بنایا گیا مولانا غلام محمد گھوٹوی رحمتہ اللہ علیہ کے توجہ دلانے پر سر رحیم بخش اور ریاست کے وزیراعظم اور دوسرے علماء کرام کے مشورے پر دارالعلوم دیوبند سے علمائے کرام کو بحث اور رائے دینے کے لئے بلوایا گیا مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے اس مقدمے پیروی کے لیے بطور وکیل حکیم نور الدین کو بھجوایا گیا کیونکہ وہ قادیانی جماعت کی اصل بنیاد تھا اور اسے اپنی جماعت قادیانیت کے ہر عقیدے کا پتہ تھا کیونکہ وہ عقائد اس کے اپنے گھڑے ہوئے تھے وہ جب بھی اپنی ٹیم کے ساتھ کمرہ عدالت میں آتا تو آنے سے پہلے آپنے جادو ٹونے اور جنات کی مدد سے پوری عدالت کو اپنے بس میں کرنے کی کوشش کرتا اسی مقدمے کے دوران اس نے جادو ٹونا بھی کیا جادو سے ہمیشہ دماغ پر کنٹرول حاصل کیا جاتا ہے اور اس سے اعصاب بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور جس بندے پر جادو کیا جائے وہ اعصابی طور پر بڑا کمزور ہو جاتا ہے جادو ٹونے سے جسٹس محمد اکبر خان پر فالج کا حملہ ہوگیا اس دوران حکیم نورالدین نے اپنے جنات کے ذریعے جسٹس اکبر کے گھر پر حملہ بھی کروایا جس سے اس کے مکان کو نقصان بھی ہوا اس وقت منطقہ حارہ کے قطب ا قطا ب حضرت مولانا خلیفہ غلام محمد صاحب دین پوری رحمہ اللہ تعالی کو روحانی طور پر جب اس مقدمے کا پتہ چلا اور حکیم نور الدین کی کارستانیوں کا پتہ چلا تو آپ حضرت مولانا خلیفہ غلام محمد صاحب دینپوری رحمت اللہ علیہ خود بہاولپور تشریف لائے اور جسٹس محمد اکبر رحمتہ اللہ علیہ کے گھر گئے ان کو دم کیا جس سے وہ فالج سے ٹھیک ہو گئے اور حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری رحمہ اللہ بذات خود روزانہ اس مقدمے کی تاریخ پیشی پر عدالت میں موجود ہوتے حکیم نورالدین روزانہ آتے ہوئے عدالت کو ہیپناٹائز کرنے کی کوشش کرتا مگر حضرت مولانا خلیفہ غلام محمد صاحب دین پوری رحمہ اللہ علیہ اس کے جادو ٹونے کے اثر کو ختم کر دیتے جس سے حکیم نورالدین کو بڑی تکلیف ہوتی وہ عدالت میں شور مچانا شروع کر دیتا کہ حضرت مولانا خلیفہ غلام محمد دین پوری رحمہ اللہ تعالی کو کمرہ عدالت سے باہر جانے کا حکم دیا جائے کیونکہ یہ جسٹس اکبر پر اپنا روحانی اثر کرتے ہیں اور ہمارے عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر اس کی اس درخواست کو رد کر دیا جاتا جسٹس اکبر کمرہ عدالت میں جب اپنے آپ کو حکیم نور الدین کے جادو ٹونے سے بے بس پاتے تو حضرت مولانا خلیفہ غلام محمد صاحب دینپوری رحمت اللہ علیہ کو دیکھنا شروع کر دیتا اور حضرت مولانا خلیفہ غلام محمد دینپوری رحمتہ اللہ علیہ جسٹس محمد اکبر کو دم کر دیتے اس سے اس کا جسم روحانی طور پر مضبوط اور طاقتور ہو جاتا اور وہ ایکٹیو ہو کر بیٹھ جاتا حضرت سید انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کی ٹیم کے دلائل سے ثابت ہوا یہ مرزا غلام احمد قادیانی جھوٹا اور دجالی نبی ہے تو جسٹس محمد اکبر خان نے سات فروری 1935 کو وہ عظیم الشان فیصلہ سنایا قادیانی فرقہ کافر ہیں اور قادیانی عقائد اسلام کے خلاف ہے یہ وہ عظیم الشان فیصلہ تھا جو انگریز گورنمنٹ کی زیر نگرانی ریاست بہاولپور میں سنایا گیا اور جس سے پوری دنیا کو پتہ لگا کہ قادیانی مسلک کے لوگ کافر ہیں اور ان سے بچ کر اپنا ایمان محفوظ کر لیں اوراس مقدمے کے دوران حضرت نواب سر صادق محمد خان عباسی رحمۃ اللہ علیہ کا کردار شاندار اہمیت کا حامل تھا نواب صادق رحمتہ اللہ علیہ نے وائسرائے ہند کے حکم کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر سچے عاشق رسول ہونے کا ثبوت دیا جس کا اجر اللہ تعالی نے یہ دیا کہ ہمارے حضرت مولانا عبد الہادی صاحب دینپوری رحمت اللہ علیہ فرماتے تھے نواب سر صادق محمد خان عباسی حضور علیہ الصلاۃ و السلام کی امت کے پہلے بادشاہ مملکت ہیں جن کو اللہ تعالی نے بلا حساب کتاب کے جنت میں اعلی مقام عطا کیا ہے اور جنت میں داخل ہونے کا خود حکم فرمایا