چینی کی قیمتوں میں اضافہ برآمدات کی وجہ سے نہیں ہوا

میڈیا میں بعض بے بنیاد غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں اس کی حقیقی وجوہات کو مدنظر نہیں رکھا جا رہا۔ ترجمان پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن پنجاب زون
بہاولپور : پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن پنجاب زون کے ترجمان نے کہا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ برآمدات کی وجہ سے نہیں ہوا۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ میڈیا میں بعض بے بنیاد غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں، جن میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کو برآمدات سے جوڑا جا رہا ہے، حالانکہ اس کی حقیقی وجوہات کو مدنظر نہیں رکھا جا رہا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ محتاط پالیسی کی وجہ سے چینی کی صنعت کو بروقت برآمدات کی اجازت نہیں دی گئی، جس سے انڈسٹری کو شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ ستمبر 2024 کے اختتام پر، صنعت کے پاس دو سال کی اضافی چینی کی پیداوار موجود تھی (تقریباً 15 لاکھ میٹرک ٹن، جس کی مالیت 250 ارب روپے تھی، جو بینکوں کے پاس تقریباً 25 فیصد سود پر گروی رکھی گئی تھی۔ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ چینی کی ذخیرہ کرنے کی مدت صرف دو سال ہوتی ہے، اس کے بعد یہ انسانی استعمال کے لیے غیر موزوں ہو جاتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر یہ ایک عام اصول ہے کہ جب کسی غذائی شے کی مقامی پیداوار ضرورت سے زیادہ ہو جائے تو اسے برآمد کیا جاتا ہے۔ حکومت کے ساتھ پہلی برآمدی اجازت کے وقت یہ طے پایا تھا کہ برآمدی مدت کے دوران چینی کی ایکس مل قیمت 140 روپے فی کلو سے تجاوز نہیں کرے گی، لیکن اضافی ذخائر کی وجہ سے کئی مہینوں تک ایکس مل قیمت اس حد سے کہیں کم رہی۔ دستیاب چینی کا تقریباً 50 فیصد اس کی پیداواری لاگت سے بھی کم قیمت پر فروخت ہوا، جس سے صنعت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ ہر سال چینی کی مسلسل اضافی پیداوار، اس کی برآمدات میں رکاوٹیں، اور مقامی سطح پر پیداواری لاگت سے کم قیمت پر فروخت سے صنعت کو شدید مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ موجودہ کرشنگ سیزن کے آغاز سے ہی واضح ہو گیا تھا کہ شوگر کین کی سکروز مقدار اور مجموعی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے، جو کیڑوں کے حملے، ناموافق موسمی حالات اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے اثرات کی وجہ سے ہوئی ہے۔ بھارت بھی چینی کے پیداواری حجم اور گنے کی سکروز مقدار میں کمی کا سامنا کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سیزن میں گنے کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اور کاشتکاروں کو 650 روپے فی من کی ریکارڈ بلند قیمت ملی، جس سے انہیں اور زرعی شعبے کو استحکام حاصل ہوا اور آئندہ برسوں میں بہتر گنے کی فصل کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔