Advertisements

"پائیدار امن کی راہ: بااختیار فلسطین”

Advertisements

اداریہ — 17 اکتوبر 2025

رطانیہ کے سابق وزیراعظم بورس جانسن کا حالیہ بیان نہ صرف امید کی ایک کرن ہے بلکہ ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ بھی پیش کرتا ہے۔ انھوں نے غزہ میں جنگ بندی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اسرائیل کو جارحیت کے بجائے مفاہمت اور مکالمے کا راستہ اپنانے کا مشورہ دیا ہے۔

Advertisements

بورس جانسن نے درست نشاندہی کی ہے کہ فلسطینی عوام کو اُن کے اپنے انداز میں زندگی بسر کرنے کی آزادی دیے بغیر خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔ ان کے مطابق مسئلۂ فلسطین کا حل اسی وقت ممکن ہے جب مقامی عوام کو سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر بااختیار بنایا جائے۔

سابق برطانوی وزیراعظم نے غزہ کی تعمیرِ نو، تجارتی سرگرمیوں میں اضافے اور سرمایہ کاری کے فروغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ معاشی استحکام ہی پائیدار امن کی ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔ ان کا یہ مؤقف قابلِ توجہ ہے کہ خوشحال معاشرہ ہی جنگ کے بجائے امن کو ترجیح دیتا ہے۔

اگرچہ بورس جانسن نے حماس کو نئی حکومت میں شامل نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے، تاہم حقیقت یہ ہے کہ حماس کو یکسر نظرانداز کرنا بھی امن عمل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ پائیدار امن کے لیے تمام فریقین کو ایک میز پر لانا وقت کی ضرورت ہے۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ کے بیس نکاتی امن منصوبے پر حماس اور اسرائیل کی منظوری ایک تاریخی پیش رفت ہے۔ قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی میں طے پانے والے اس معاہدے کے بعد حماس نے تمام زندہ اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا اور اس کے بدلے میں تقریباً دو ہزار فلسطینیوں کو آزادی ملی۔ یہ اقدام ایک بڑی انسانی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یہ معاہدہ اگر خلوص نیت اور بین الاقوامی تعاون کے ساتھ جاری رہا تو مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے دورِ امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔ تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل اپنی پالیسیوں میں نرمی لائے اور فلسطینی عوام کے حقوق کو تسلیم کرے۔ بصورتِ دیگر، خطے میں امن کا خواب ایک بار پھر ادھورا رہ جائے گا۔