یاد رفتگاں : میڈم نجم النساء بخاری مرحومہ —- (ایک نابغہ روزگار، متاع تعلیم وصحافت کا ذکرِ جمیل)

Govt Girls Model High Dchool APE

"تحریر:حمیداللہ خان عزیز "ایڈیٹر:مجلہ”تفہیم الاسلام

                                                                                                                                                                                                                                                                   

یہ دنیا فانی ہے،جو بھی آیا ہے،ایک دن موت کا جام ضرور پئے گا۔مگر کچھ لوگ اپنی زندگی کے شب روز اس طرز پر گزارتے ہیں کہ رخصت ہو جانے کے بعد حیات جاوداں پا جاتے ہیں۔ایسی شخصیات میں ایک مربیہ اور ماہرہ تعلیم میڈم سیدہ نجم النساء مرحومہ کا نام بھی شامل ہے،میڈم صاحبہ احمد پور شرقیہ کے معروف بخاری سادات گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں،ان کے والد مخدوم سید گل محمد شاہ مرحوم(وفات:8جنوری 2008ء) نامور  شاعر اور ادیب تھے۔
میڈم نجم النساء بخاری مرحومہ،انٹرنیشنل صحافی، معروف تجزیہ نگار، روزنامہ "نوائے احمد پور شرقیہ”(بہاول پور) کے بانی چیف ایڈیٹر جناب احسان احمد سحر کی اہلیہ محترمہ تھیں۔
میڈم صاحبہ اعلی تعلیم یافتہ تھیں،انہوں نے خدمت کے جذبہ سے  محکمہ تعلیم جوائن کیا اور سرکاری سکول میں بہ طور ہیڈ مسٹریس اپنے مفوضہ فرائض  بھر پور انداز میں انجام دئیے اور تاحیات پیشہ تدریس سے منسلک رہیں۔وہ سائنس کے مضامین پڑھاتی تھی،ان کا اسلوب تدریس انتہائی سہل اور شستہ ہوتا کہ ان کی شاگردہ بچیاں ان کی تدریس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں تھیں۔۔۔۔انہوں نے تدریس کے ذریعے جہد مسلسل کے نئے دیپ جلائے اور  قوم کی بیٹیوں کی تربیت عبادت کی نیت سے کی-
بقول شخصے:
ہو گیا اپنی فضاوں میں اجالا ہر سو
جس گھڑی جہد مسلسل کے نئے دیپ جلے

میری کچھ عزیزات بچیاں گورنمنٹ گرلز ہائی سکول احمد پور شرقیہ میں ان کی شاگردی میں رہیں،آج میں نے اپنی ایک عزیزہ کو بتایا کہ میڈم صاحبہ کی وفات کو پورا سال گزر گیا ہے،ان کی کوئی یاد ہو تو میرے ساتھ شئیر کرو،اس نے بتایا کہ میڈم مرحومہ انتہائی ملن سار،فرض شناس، مجسمہ اخلاق اور اپنی شاگردہ لڑکیوں کے لئے سراپا اخلاص استانی تھیں۔
ان کے زیر تربیت رہنے والی خواتین اور لڑکیاں یہ گواہی دیں گی کہ میڈم صاحبہ انتہائی رقیق القلب تھیں،ان میں غرباء اور مساکین کے لئے دھڑکنے والا دل تھا۔
میری قریبی عزیزہ نے ایک واقعہ سنایا کہ: ایک لڑکی دسویں کلاس میں داخل ہوئی،اس کے والدین دونوں اس جہان میں نہیں رہے تھے، وہ ان کی جدائی میں اکثر کلاس میں روتی رہتی۔۔میڈم نجم النساء مرحومہ کو پتا چلا،تو ایک دن اچانک کلاس میں آئیں اور  کہا:شگفتہ کہاں ہے؟وہ لڑکی کھڑی ہو گئی،اسے اپنے ساتھ آفس میں لے گئیں، اسے گلے سے لگایا،اسے روتا دیکھ کر خود بھی روپڑیں۔۔۔تسکینِ قلب کے لئے اسے سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ واقعات سنائے،لائبریری سے دو کتابیں نکلوا کر دیں،اور کہا:”تم آج سے  مجھے اپنی ماں سمجھ لو!اب رونا نہیں،کسی چیز کی ضرورت ہو،مجھے بس کاغذ پر لکھ کر چٹ پکڑا دینا،وہ چیز تمہیں مل جائے گی-"
اس کے بعد وہ لڑکی اکثر خوش نظر آنے لگی،میڈم اس کی اکثر ضروریات کا خیال رکھتیں،میری وہ عزیزہ کہتی ہے کہ ایک دن میڈم نے اسے بلایا میں بھی ساتھ چلی گئی اور دروازے کے ساتھ لگ کر ٹھہر گئی، کہ  اس کے ساتھ میڈم کا رویہ دیکھوں۔۔انہوں نے شگفتہ سے پوچھا: آپ کے بھائی کی شادی کب ہے،اس نے کوئی تاریخ بتائی،تو میڈم نے کہا کہ تمہارے لئے دوسوٹ منگوائے ہیں،اور یہ سلائی کے پیسے ہیں،فوری سلوا لو۔۔۔خوشی کے موقعے کو انجوائے کرو۔۔اگر مزید کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا۔۔”
محترمہ مرحومہ کی شخصیت کا ایک اہم پہلویہ تھا کہ وہ سکول کی طالبات کے ساتھ بالعموم مشفقانہ رویہ اختیار کرتیں،اور نادار طالبات کی مالی کفالت کا بندوبست اور بیمار بچیوں کے علاج معالجہ میں دلچسپی لیتیں۔
یہ تھیں میڈم نجم النساء بخاری مرحومہ کا رفیقانہ اور مربیانہ چہرہ۔۔۔۔ طالبات کے ساتھ  ان کی شفقت کے واقعات تلاش کیے جائیں تو پوری ایک کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔
میرے چاروں طرف پھیلی ہوئی ہے روشنی تیری
مزا دیتی ہے اس حالت میں مجھ کو بندگی تیری

میڈم صاحبہ صوم وصلوة کی پابند، شب زندہ دار خاتون تھیں، تلاوت قرآن اور سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ ان کے معمولات میں شامل تھا۔

میڈم نجم النساء بخاری مرحومہ،کی ہمیں ہمسائیگی حاصل رہی،ان کا پرانا گھر  محلہ شکاری (ریلوے روڈ) کوچہ سادات میں تھا،یہیں انہوں نے پرورش پائی اور تعلیم کے مراحل طے کیے،جناب احسان احمد سحر صاحب کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد بھی کچھ عرصہ یہیں رہائش پذیر رہیں، اپنی رہائش گاہ پر انہوں نے طالبات کے لئے اکیڈمی بھی بنا رکھی تھی،جہاں وہ سکول سے فراغت کے بعد تدریس میں مصروف رہتیں۔
میرا بچپن اور لڑکپن اسی محلے میں گزرا ہے،اب بھی یہیں رہتا ہوں،میں نے انہیں ہمیشہ پروقار اور باپردہ دیکھا ہے۔میرے والد حکیم عبدالخالق خان عزیز مرحوم کی میڈم صاحبہ کے بزرگوں سے پرانی یادِاللہ تھی،اس نسبت سے وہ میرے والد مرحوم کا بھی احترام کرتیں،والد صاحب کو ہمیشہ صوفی صاحب کہہ کر مخاطب کرتیں،ان کی رہائش گاہ کی مغربی جانب ہمارا گھر ہے اور یہیں والد صاحب کا مطب ہوا کرتا تھا۔ایک مرتبہ کہنے لگیں کہ صوفی صاحب!اکیڈمی میں بچیوں کے آنے جانے پر پہلے میں پریشان ہوتی تھی،لیکن جب سے آپ یہاں مستقل بیٹھے ہیں،میری تمام فکریں کافور ہو گئیں ہیں۔
کم وبیش تین عشرے شعبہ تعلیم سے وابستہ رہنے کے بعد گورنمنٹ  گرلز ہائی سکول احمد پور شرقیہ سے ہیڈ مسٹریس کے طور پر ریٹائر ہوئیں،ان کی ریٹائرمنٹ پر محکمہ تعلیم بہاول پور کے آفیسرز نے انہیں خراج تحسین پیش کیا،اور ان کی الوداعی پارٹی کے موقع پر سینئر مدرسات نے ان کی خدمات کو سراہا،اور ان کے جانے کو ادارہ کے لئے ایک نقصان قرار دیا۔یہ بات درست ہے کہ وہ صرف استانی نہیں تھیں بلکہ خاندان سادات سے تعلق کے باعث ان میں اللہ تعالی نے  بے شمار خوبیاں ودیعت کر رکھی تھیں۔وہ پردے کی سخت پابند تھیں،سکول میں ایک ماں کے روپ میں رہتیں، طالبات کی روحانی تربیت کا فریضہ خوب طریقے سے انجام دیتیں،گرلز ہائی سکول میں ان کی موجودگی سے شہر کے باسی اپنی بیٹیوں کی پردہ داری، چال چلن اور ذہنی وفکری تربیت سے اطمینان محسوس کرتے۔۔
ایک دینی گھرانے سے تعلق،مطالعے سے شغف اور اعلی تعلیم یافتہ ہونے کی حیثیت سے صحافت وادب کے ساتھ ان کی گہری وابستگی رہی،علم وادب کے ساتھ ان کی دلچسپی کے مظاہر کبھی کبھار استاد محترم جناب احسان احمد سحر کی زبانی معلوم ہو جاتے تھے۔

سکول سے ریٹائرمنٹ کے بعد جناب احسان احمد سحر نے انہیں  روزنامہ "نوائے احمد پور شرقیہ”کے ایڈیٹر کے فرائض سونپ دئیے۔۔ان کا نام حیات مستعار کے آخری روز تک اخبار کی پیشانی پر لکھا جاتا رہا۔۔روزنامہ”نوائے احمد پور شرقیہ”نے ان کے صحافتی نقوش بھی اپنے صفحات پر مرتسم کیے ہیں،جب کبھی اخبار کی تاریخ لکھی جائے گی تو ایڈیٹر کی حیثیت سے ان کا تذکرہ اور تعارف بھی ضرور احاطہ تحریر میں لایا جائے گا۔ایک ایڈیٹر کی حیثیت سے وہ ملک میں وقوع پذیر ہونے والے مسائل اور حالات حاضرہ پر بھی گہری نظر رکھتی تھیں۔۔

میڈم صاحبہ کے شریک حیات جناب احسان احمد سحر کا اصل تعارف انٹر نیشنل صحافت کے ساتھ ہے، وہ بیرون ملک کئی عالمی صحافتی کانفرنسوں میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے،بلا شبہ وہ معدودے عالمی  آزادی صحافت کے علمبرداروں میں شمار ہوتے ہیں،نو آموز صحافیوں کی تربیت اور پیشہ وارانہ امور کی انجام دہی کے دوران خوفناک حالات سے بچاو اور سلامتی کے لئے  انہوں نے اپنے ادارے رورل میڈیا نیٹ ورک پاکستان کے ذریعے نوآموز صحافیوں کے لئے تربیتی ورکشاپس کا آغاز کیا، آر ایم این پی کا ترجمان رسالہ "صادق نیوز”کے نام سے جاری کیا،جو بیک وقت اردو اور انگریزی دونوں میں چھپتا رہا،بعد میں یہ آن لائن ایڈیشن کی صورت میں شایع ہونا شروع ہوا، میڈم نجم النساء صاحبہ کو "صادق نیوز”کی ایڈیٹر شپ کا منصب بھی عطا ہوا۔ آر ایم این پی کے زیر اہتمام منعقدہ ورکشاپس میں خواتین بھی صحافتی  تربیت کے مراحل سے گزریں،میڈم صاحبہ خواتین صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرتیں ،اور انہیں اصلاح معاشرہ میں اپنا فرض نبھانے کا بھی کہتیں۔
یہ وطن کی بیٹیاں ان سے وطن کی آبرو
کارزارِ زندگی جن سے ہمیشہ سرخرو
مکرمہ نجم النساء صاحبہ گزشتہ برس 19 ستمبر 2023ء بروز منگل دوپہرکو نو ماہ کی طویل علالت کے بعد کڈنی سنٹر وکٹوریہ ہسپتال بہاول پور میں خالق حقیقی سے جا ملیں ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
ان کا جنازہ اگلے روز 246-C سیٹلائیٹ ٹاون زیڈ بلاک سے اٹھایا گیا اور 10:30 بجے صبح مرکزی عید گاہ محمود پارک نزد چوک منیر شہید احمد پور شرقیہ میں شہر کے مشہور بزرگ عالم مولانا قاری عبدالعلیم صاحب کی امامت میں ادا کیا گیا۔اللھم اغفرلھم وارحمھم واعف عنھم۔آمین
 امیر آف بہاول پور نواب صلاح الدین عباسی،سابق گورنر پنجاب  میاں بلیغ الرحمن نے احسان احمد سحر صاحب کو تعزیت کے لئے فون کیا،امیر آف بہاول پور نے جناب احسان احمد سحر کے ساتھ اپنے چالیس سالہ دیرینہ تعلقات کی بناء پر ان کے  اس صدمے کو ذاتی صدمہ قرار دیا۔عباسی خاندان کی سرکردہ شخصیات پرنس بہاول عباس خان عباسی،شہزادہ محمد عمر داود خان عباسی، شہزادہ فیض الرشید عباسی، صاحبزادہ میاں مزمل الرشید عباسی اور قومی سطح کے تمام شعبہ ہائے فکر کی ممتاز ترین شخصیات نے میڈم نجم النساء کی وفات پر دلی اظہار افسوس کیا،اور مرحومہ کی تعلیمی،تدریسی اور صحافتی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی کامل مغفرت کے لئے دعائیں کیں۔چند حضرات کے نام یہ ہیں:
فیاض حسین عباسی کمشنر سکھر ڈویژن،پیر سید جرار شاہ،مرکزی چئیرمین کسان بورڈ جام حضور بخش لاڑ،چئیرمین اتحادِ امت قاری محمد یعقوب شیخ،صدر آل پاکستان ریجنل نیوز پیپرز سوسائٹی جی ایم جٹ، مسلم لیگی رہنما قاضی برہان فرید  وغیرہ۔
آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس عظیم معلمہ کو اپنے جوارِ خاص میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کے قلوب میں سکینت پیدا فرما دے۔آمین ثم آمین
عطا پوشی خطا پوشی ازل سے کام ہے تیرا
جہاں میں بے سہاروں کا سہارا نام ہے تیرا