سیلابی صورتحال کا مستقبل – ڈیمز، بندوں اور آفات سے بچاؤ کی حکمت عملیوں کی ضرورت
اداریہ—- 28 ستمبر 2025
پاکستان اس وقت ایک بار پھر تباہ کن سیلابی صورتحال کا شکار ہے۔ جنوبی پنجاب اور ملک کے دیگر حصوں میں ہزاروں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں، لاکھوں ایکڑ زرعی رقبہ زیرِ آب آ گیا ہے، جبکہ بنیادی ڈھانچے کی بربادی نے لوگوں کو مشکلات کے گرداب میں دھکیل دیا ہے۔ یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں کہ موسمیاتی تغیرات کے اثرات پاکستان پر شدید ترین انداز میں مرتب ہو رہے ہیں، اور مستقبل قریب میں ایسے طوفانی حالات مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے حالیہ سیلاب کے دوران بتایا کہ پنجاب واحد صوبہ ہے جس نے 25 لاکھ متاثرہ افراد کو ریسکیو کیا اور انہیں "مہمانوں” کی طرح تین وقت کا کھانا فراہم کیا۔ یہ بیان اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ اگر صوبائی حکومتیں عزم اور بہتر انتظامی حکمت عملی کے ساتھ کام کریں تو بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ہر سال صرف ریسکیو اور ریلیف پر انحصار کرتے رہیں گے یا پائیدار منصوبہ بندی کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کریں گے؟
سیلاب سے بچاؤ کے لئے تین بنیادی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں:
- ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر: یہ نہ صرف پانی کو ذخیرہ کرنے اور بجلی پیدا کرنے میں مددگار ہوں گے بلکہ بڑے پیمانے پر آنے والی طغیانی کو بھی روک سکیں گے۔
- حفاظتی بندوں اور فلڈ چینلز کی تعمیر و مرمت: دریاؤں کے کناروں پر مضبوط بندوں کی تعمیر اور پرانے بندوں کی مرمت ناگزیر ہے۔ ساتھ ہی قدرتی پانی کے راستوں کو بند کرنے سے گریز کیا جائے تاکہ دباؤ کسی ایک علاقے میں نہ بڑھے۔
- ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور عوامی آگاہی: قومی سطح پر ایک مؤثر ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کی تشکیل وقت کی ضرورت ہے۔ قبل از وقت وارننگ سسٹمز، مقامی حکومتوں کی تیاری اور عوامی سطح پر آگاہی مہم مستقبل میں جانی و مالی نقصان کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتی ہیں۔
یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ سیلاب کا خطرہ مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا، مگر مربوط پالیسی، سیاسی عزم اور جدید انفراسٹرکچر کے ذریعے اس کے نقصانات کو نمایاں حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ فیصلہ حکومت اور پالیسی ساز اداروں کو کرنا ہے کہ آیا وہ محض وقتی امدادی اقدامات پر انحصار کریں گے یا آنے والی نسلوں کے لئے ایک محفوظ مستقبل کی بنیاد رکھیں گے۔

