تحریک عدم اعتماد اور چھوٹی سیاسی جماعتوں کی بلیک میلنگ
اداریہ: ہفتہ 26 فروری 2022
اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے خلاف ممکنہ تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے ان دنوں جہاں دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے یک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق کر لیا ہے وہاں جہاں چھوٹی سیاسی جماعتوں کے بھی وارے نیارے ہو گئے ہیں
اطلاعات کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کوقائل کیا ہے کہ اب چو نکہ اسٹیلمبشمٹ نیو ٹرل ہے اس لیے متحدہ اپوزیشن اپنا یہ ہدف حاصل کی سکتی ہے میاں نواز شریف اور آصف زرداری کے مابین بھی اختلافات کے خاتمہ کی نوید بھی سنائی جارہی ہے
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو چھوٹی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ قائد اعظم ایم کیو ایم پاکستان جی ڈی اے اور باپ کی حمایت کے باعث ایوان میں اکثریت حاصل ہے اس لیے آصف علی زرداری مولانا فضل الرحمن اور میاں شہبازشریف چو ہدری برادرن کی اقامت گاہ کے چکر لگارہے اُنہیں ظہرانوں اور عشائیوں پر مدعو کیا جا رہا ہے اور یوں ق لیگ کی طرح دیگر چھوٹی جماعتوں کی لاٹری نکل آئی ہے ایم کیو ایم نے بھی حکومت کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں یہی حال دیگر چھوٹی اتحادی جماعتوں کا ہے
ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسلم لیگ ق قومی اسمبلی میں پانچ نشستوں کے ساتھ دو وزراتوں اور اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز نیز مخصوص اضلاع میں اپنے چہیتے افسران کی تقرری سے فوائد سمیٹ رہی ہے وہاں وہ پنجاب میں سپیکرصوبائی اسمبلی اور صوبائی وزارتوں کی مراعات سے لطف اندوز ہورہی ہے مگر اب اس کے قائدین کی اپوزیشن کے قائدین سے پنجاب کی وزرات اعلیٰ اور دیگر منافع بخش عہدوں کے لیے سودے بازی کرنے کی اطلاعات زبان زد عام ہیں
برطانوی پارلیمانی نظام کی یہ خامی ہے جسکا مظاہرہ ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے اگراپوزیشن کی بڑی سیاسی جماعتوں نے چھوٹی جماعتوں کی بلیک میلنگ کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور ان کے مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا تو یہ کسی طرح بھی پاکستان میں جمہوری نظام کے لیے نیک شگون نہیں ہو گا