پیکا قانون میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم
اداریہ: بدھ 23 فروری2022
وفاقی حکومت نے نواز شریف حکومت کے دور میں بنائے گئے پیکا قانون میں صدارتی آرڈنینس کے ذریعے ترمیم کر دی ہے جسکے مطابق الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت سزا کی مدت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال اور دس لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا مقرر کی ہے آرڈنینس کے ذریعے اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں درج مقدمہ کا فیصلہ چھ ماہ کے اندر ہو گا وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی فیک نیوز پھیلانے کا سلسلہ جاری ہے جسکے تدارک کے لیے پیکا آرڈنینس میں ترمیم کی گئی ہے
پاکستان فیڈرل یونین آف جر نلٹس نے پیکا قانون میں صدارتی آرڈنینس کے ذریعے ترمیم کو اسلام آ باد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے جبکہ آل پاکستان نیوز پیپر زسوسائٹی(اے پی این ایس) کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹر (ز سی پی این ای) پاکستان براڈ کاسٹر ز ایسوسی ایشن(پی بی اے) پاکستان فیڈرل یونین آف جر نلٹس(پی ایف یو جے) اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹر ز اور نیوز ڈائریکٹر ز(ایمنڈ)پر مشتمل میڈیا جو ائنٹ ایکشن کمیٹی نے وزارت اطلاعات کے ساتھ اجلاس کو ایک مذاق قرار دیتے ہوئے واک آؤٹ کر دیا میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے اعلان کیا ہے کہ جب تک پیکا میں سخت ترمیم کو واپس نہیں لیا جاتا تب تک بات چیت کو معطل رکھا جائے گا وزیر اطلاعات مصروفیات کی آڑ میں میڈیا برادر ی کو ٹال رہے ہیں آزادی اظہار رائے کے خلاف آرڈنینسز نافذ کئے جا تے ہیں اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ میڈیا برادری سے رابطہ کیا جارہا ہے ایک کے بعد ایک سنگین مثال موجود ہے جس میں وزارت اطلاعات آزادی اظہار پر قدغن لگا رہی ہے اور صحافیوں کے خبر دینے کے حق کو دبایا جا رہا ہے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطابق صحافت کو دبانے کے لیے میڈیا کو مالی طور پر معذرو کیا جا رہا ہے جبکہ میڈیا برادری نے اس سے پہلے بھی خبردار کیا تھا اور وزیر اعظم سے ایپل کی تھی کہ ایک خطرناک رجحان اُبھررہا ہے حکومت میڈیا اور میڈیا ورکرز کے مابین فاصلے پیدا کر رہا ہے میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کا کہنا ہے کہ تمام میڈیا ادارے آزادی اظہار رائے کے تحفظ اور عوام کی معلومات کے حق کا تحفظ کرنے کیلئے متحد ہیں۔
ہم ان کالموں کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان سے گزارش کریں گے کہ وہ پیکا قانون کے حوالے سے تمام سٹیک ہولڈر ز کو اعتماد میں لیں اور انکے مشورے سے پیکا قانون میں ترامیم کی جائیں ہم فیک نیوز اور مادرپدری آزادی کے ہرگزحامی نہیں ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کے ان تحفظات کو درست سمجھتے ہیں کہ مخصوص ایجنڈے کے تحت وزیر اعظم اُنکی اہلیہ محترمہ اور دیگر حکومتی قائدین کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ اس پس منظر میں یہ بہتر ہو گا کہ جملہ سٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لیکر فیک نیوز کے خلاف قانون سازی کی جائے اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کیا جائے
یکطرفہ طور پر آرڈنینس کے نفاذ سے شکوک وشہبات نے جہنم لیا ہے اور یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ حکومت آزادی صحافت اور آزادی اظہار کا گلہ گھوٹنا چاہتی ہے وزیر اعظم عمران خان سے کسی کو بھی ایسے اقدامات کی توقع نہیں تھی اُمید کی جانی چاہے کہ پی ٹی آئی حکومت ملک میں آزادی صحافت اور آزادی اظہار پر کسی قسم کی پابندیاں عائد نہیں کرے گی کیونکہ اسکے نتیجہ میں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا امیج متاثر ہو گا جو کسی بھی طرح ملک مفاد میں نہیں ہو گا۔