معروف صحافی محسن بیگ کی اسلام آباد میں گرفتاری، طاقتور صحافی اورطاقت ور ریاست آمنے سامنے
اداریہ: جمعتہ المبارک18 فروری 2022
ایف آئی اے نے وفاقی وزیر مراد سعید کی جانب سے لاہور میں درج کرائے گئے سائبر کرائم کے مقدمہ میں نیوز ایجنسی آن لائن کے ایڈیٹر اورسینئر صحافی محسن بیگ کو اسلام آباد میں اُنکی اقامت گاہ پر اچانک چھاپہ مار کر گرفتار کر لیا اطلاعات اور وڈیو ز کے مطابق محسن بیگ نے پستول سے فائرنگ بھی کی جس سے ایف آئی اے کا ایک ملازم زخمی ہوگیا محسن بیگ اور اُنکے صاحبزادے کی مزاحمت کے باوجود ایف آئی اے نے اُنہیں گرفتار کر لیا اور متعلقہ تھانے کی حوالات میں بند کر دیا
صحافی محسن بیگ وزیر اعظم عمران خان کے انتہائی قریب رہے ہیں اور تحریک انصاف کیلئے فنڈز بھی جمع کرتے رہے ہیں‘گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو بھی اُنہوں نے ہی تحریک انصاف میں شامل کرایا تھا یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے متعدد رہنماء انتخابات میں ٹکٹوں کے حصول کے لیے بھی اُن کی خدمات حاصل کرتے رہے ہیں ان میں بعض وفاقی وزراء بھی شامل ہیں۔محسن بیگ کے سال ڈیڑھ سال قبل وزیر اعظم سے اختلافات ہوئے محسن بیگ کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمن کی گرفتاری اور میڈیا کے خلاف حکومتی اقدامات کے باعث عمران خان سے دوری اختیار کی جبکہ پی ٹی آئی کے زعماء کا کہنا ہے کہ محسن بیگ نے مبینہ طور پر ایک روسی کمپنی کے لیے ٹھیکہ مانگا تھا مگر حکومت نے انکار کر دیا جس پر محسن بیگ نے ناراض ہو کر وزیر اعظم کے خلاف مبینہ طور پر میڈیا کمپیئن لانچ کر رکھی تھی۔
اسلام آباد کے سینئر صحافی محسن بیگ کے خلاف ایک ٹی وی پروگرام میں وزیر اعظم عمران خان کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کی کتاب کے حوالے سے قابل اعتراض گفتگو کرنے کا الزام ہے جس کے نتیجہ میں وفاقی وزیرمراد سعید نے ایف آئی اے لاہور میں اُن کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرایا
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کو بھی چاہیے تھا کہ وہ سینئر صحافی محسن بیگ کو دفتر بلا کر اُنہیں گرفتار بھی کر سکتی تھی مگر انکی اقامت گاہ کے اندر گھس کر اُنہیں گرفتار کرنے کی کوشش غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے لاہور میں وقوعہ کے روز صبح نوبجے مقدمہ درج ہوا اور ساڑھے نو بجے ایف آئی اے اسلام آباد میں محسن بیگ کوگرفتار کرنے پہنچ گئی جس سے ظاہر ہو تا ہے کہ حکومت نے اُنہیں فی الفور گرفتار کرنے کے لیے ایف آئی اے حکام پر دباؤڈالا دوسری طرف محسن بیگ کو بھی چاہیے تھا کہ جب وہ مزاحمت کرتے ہوئے اپنی رہائش گاہ کے باہر آئے تو پولیس موبائل وہی موجود تھی اُنہیں اس مو قع پر ایف آئی اے کی ٹیم پر پستول سے فائرنگ نہیں کرنا چاہیے تھا جو انتہائی غیر قانونی حرکت ہے جسے کسی طرح بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا اگر محسن بیگ از خود فائرنگ نہ کرتے تو آج ملکی و بین الاقوامی میڈیا اُنکی گرفتاری کے خلاف مذمت کرتا بلکہ اُنکی رہائی کے لیے حکومت پربھرپور دباو ڈالاجاتا
ہم ان کالموں کے ذریعے حکمران جماعت سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ ریاستی اختیارات کا بے جا استعمال نہ کرے کیونکہ اس طرز عمل سے اُن کی نیک نامی میں اضافہ نہیں ہوگا اور تاریخ اُنہیں بھی سول ڈکٹیٹر جماعت کے طور پر یاد رکھے گی دوسری طرف صحافیوں کو بھی چاہیے کہ وہ لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت نہ کریں کسی پرکیچڑ نہ اُچھالیں بالخصوص خواتین کو سوشل میڈیا پر ٹارگٹ نہ کیا جائے ہم مادر پدر آزادی کے خلاف ہیں ہماری خواہش ہے کہ ملک میں ذمہ دارنہ صحافت کو فروغ دیا جائے سیاستدانوں انکے اہل خانہ نیز خواتین صحافیوں کی کردار کشی کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے۔