سرد موسم میں سیاست گرم
اداریہ: جمعتہ المبارک 11 فروری 2022
وطن عزیز میں جاری ٹھنڈے موسم میں ان دنوں سیاست گرم ہو گئی ہے اپوزیشن کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے اب وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے ایک دوسرے سے دوبارہاتھ ملا لیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ہدایت پر مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف نے سابق صدر آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو ماڈل ٹاون لاہور میں اپنی اقامت گاہ پر ظہرانہ پر مدعو کیا جہاں مریم نواز خواجہ سعد رفیق میاں حمزہ شہباز اور مریم اورنگزیب بھی موجود تھیں اس ملاقات میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر غور کیا گیا یہ بھی بتایا گیا ہے کہ نواز شریف جو پہلے عدم اعتماد کے خلاف تھے اب پیپلز پارٹی کے پرانے موقف کے حامی ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے اس سلسلے میں اپنے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو گرین سگنل دے دیا ہے۔
اپوزیشن وزیر اعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے حکومت کی اتحادی جماعتوں سے بھی رابطے کررہی ہے سابق صدر آصف علی زرداری نے مسلم لیگ ق کے قائدین چوہدری شجاعت حسین‘چوہدری پرویز الٰہی سے لاہور میں پرویز الٰہی کی رہائشگاہ پر دیئے گئے ظہرانہ میں تحریک عدم اعتماد پر گفتگو کی۔جبکہ ایم کیو ایم کا وفد لاہور میں شہباز شریف کی اقامت گاہ پر ملا جہاں پر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے مسئلہ پر تبادلہ خیال کیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی(باپ)جو حکومت کی اتحادی ہے اس نے بھی انگڑئی لی ہے اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے سند ھ میں حکومت کی اتحادی جی ڈی اے کی قیادت بھی حکومت کے ساتھ اتحادبرقرار رکھنے یا نہ رکھنے کے لیے مشاورت کررہی ہے ادھر شہباز شریف بھی مسلم لیگ ق کی قیادت سے عنقریب ملاقات کرنے والے ہیں دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس بھی طلب کرلیا گیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی 27فروری کو حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور پی ڈی ایم 23 مارچ کو لانگ مارچ کرنے کے اعلانات کر چکی ہیں
ماضی میں بھی اپوزیشن نے حکومت کو گرانے کے بڑے دعوے کیے مگر پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی نے پی ڈی ایم سے علحدگی اختیار کر لی مریم نواز اور بلاول بھٹو نے ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری کی۔ ن لیگ کی قیادت پیپلز پارٹی پر دورن خانہ سودے بازی جیسے الزامات بھی عائد کرتی رہی پی ڈی ایم کی کار کردگی سے عوام کو مایوسی ہوئی لاہور جسے مسلم لیگ ن اپنا گڑھ کہتی ہے وہاں مریم نواز کی جد وجہد کے باوجود کا میاب جلسہ نہیں ہو سکا تھا
اب پیپلز پارٹی کی جانب سے 27 فروری اور پی ڈی ایم کی جانب سے 23 مارچ کو لانگ مارچ کرنے کے اعلانات کے علاوہ تحریک عدم اعتماد لانے کے دعوے بھی کیے جارہے ہیں پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی حکمران کے خلاف اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد تحریک کامیاب نہیں ہوئی گو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی مگر وہ بھی ناکام ہوئی تھی مگر اسکے نتیجے میں اُنکی حکومت کمزور ہو گئی اور1990 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی الیکشن ہار گئی تھی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دو لانگ مارچوں کے بجائے صرف ایک لانگ مارچ کریں گی غالبارواں ماہ میں جہاں اپوزیشن عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کریگی وہاں وہ مشترکہ طور پر لانگ مارچ کرے گی تاکہ حکومت پر دباو بڑھایا جا سکے
اپوزیشن کی حکومت مخالف مہم کے مقابلہ میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی ملک بھر میں جلسے کرنے کا اعلان کر دیا ہے ان کا پہلا جلسہ منڈی بہا ؤالدین میں منعقد ہو گا وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ وہ جلسے جلسوں کی بجائے عوام کو مہنگائی سے نجات دلائیں جو وطن عزیز کاان دنوں سب سے بڑا مسئلہ ہے اگر وہ مہنگائی پر کنٹرول نہیں کریں گے تو انکے لیے مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو گا اوردوسری طرف مہنگائی سے عاجز عوام اپوزیشن کی حمایت میں بھی سڑکوں پر آسکتے ہیں اپریل کے پہلے ہفتے تک حکومت کو اپوزیشن کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اگر وزیر اعظم عمران خان ماہ صیام سے قبل اپوزیشن کی مہم کوناکام کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے بعد اُنکی حکومت کو گرانا اپوزیشن کے بس سے باہر ہوجا ئے گا۔