جنوبی پنجاب کے لئے ملازمتوں میں 32 فی صد کوٹہ

اداریہ: جمعةالمبارک 4 مارچ 2022ء

جنوبی پنجاب کا شمار وطن عزیز کے پسماندہ ترین علاقوں میں ہوتا ہے جو ہر شعبہ زندگی میں اپر پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں سے کہیں پیچھے ہے۔سابق ریاست بہاول پور جو اب جنوبی پنجاب کا حصہ ہے، اس کے رہائشی ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لئے دفتروں کی خاک چھانتے پھر رہے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔

1970ء میں صوبہ بہاول پور کی بحالی کی تحریک چلائی گئی اور جب سقوط مشرقی پاکستان کے بعد مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار ملا تو انہوں نے کسی حد تک بہاول پوریوں کی اشک شوئی کی۔انہوں نے سابق ریاست بہاول پور کےنوجوانوں کے لئے ساڑھے بارہ فی صد کوٹہ مختص کیا جو ان کے اقتدار کے بعد ختم کر دیا گیا۔

یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے ہمیشہ اپنے دور اقتدار میں جنوبی پنجاب کو ترجیح دی جب کہ مسلم لیگ ن کا رویہ اس کے برعکس رہا۔پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں صدر مملکت،گورنر پنجاب،اسپیکر قومی اسمبلی اور سینئر وزیر پنجاب جیسے عہدے جنوبی پنجاب کی شخصیات کو سونپےگئے مگر اس بدقسمت اور پسماندہ علاقہ کے وڈیروں اور جاگیر داروں نےجنوبی پنجاب کی پسماندگی دور کرنے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا۔

سید یوسف رضاگیلانی پیپلز پارٹی کے دور میں وزارت عظمی کے منصب جلیلہ پر فائز رہے،وہ چاہتے تو جنوبی پنجاب کو صوبہ کا درجہ دے سکتے تھے مگر انہوں نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔

موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے بھی جنوبی پنجاب کو صوبہ کا درجہ دینے کا وعدہ کیامگر ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک وفا نہیں ہو سکا۔تاہم ملتان اور بہاول پور میں لولے لنگڑے سیکرٹریٹ قائم کیے گئے ہیں۔البتہ پنجاب کابینہ کاحالیہ فیصلہ وزیر اعلی پنجاب عثمان خان بزدار کی حکومت کا تاریخی اقدام ہے،جس کے تحت صوبہ پنجاب کی ملازمتوں میں سے جنوبی پنجاب کے لئے ملازمتوں میں 32 فی صد کوٹہ مختص کیا گیا ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ پنجاب کابینہ کے فیصلے پر جلد از جلد عمل درآمد کیا جائے گا اور پنجاب پبلک سروس کمیشن بھی اس حوالے سے جلد از جلد عملی اقدامات بروئے کار لائے گا۔ہم جنوبی پنجاب کے لئے ملازمتوں میں 32 فی صد کوٹہ مختص کرنے پر وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کے سپاس گزار ہیں۔