وزیراعظم عمران خان کی میڈیا سے ناراضگی
اداریہ: بروز بدھ 02 فروری 2022
وزیر اعظم عمران خان آج کل تقربیات اور اپنے انٹرویوز میں میڈیا سے خفا نظر آتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ صحافی تنقید کریں لیکن فیک نیوز نہ پھیلائیں وزیر اعظم کا موقف ہے کہ مثبت تنقید اچھی چیزہوتی ہے جمہوریت کا حسن ہو تا ہے لیکن صحافیوں کو اپنی رپورٹنگ میں بیلنس کرنا چاہیے۔
وزیر اعظم عمران خان کے برسر اقتدار آنے سے قبل ملکی میڈیا نے نواز شریف حکومت کے خلاف اُن کے دھرنوں جلسوں پریس کانفرنسوں سمیت دیگر تقربیات کی نہ صرف کوریج کی بلکہ اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جس پر مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے تحفظات کا اظہاربھی کیا تھا وزیر اعظم ماضی میں اس امر کا بھی اعتراف کر چکے ہیں کہ اُنکی جماعت کے بر سر اقتدار آنے میں میڈیا کا بڑا کردار ہے
دوسری طرف ملکی میڈیا بھی عمران حکومت سے شاکی دکھائی دیتا ہے پی ٹی آئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سرکاری اشتہارات کے اجراء میں کمی کرا دی گئی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو طویل عرصے تک اشتہارات کے بل ادانہیں کئے گے ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ میڈیا سلف سنسر شپ پر مجبور ہو گیا پی ٹی آئی حکومت کے دور میں درجنوں اخبارات اور متعدد ٹی وی چینلز مالکان نے بند کر دیئے۔ہزاروں صحافیوں کومعاشی مشکلات کی بناء پر میڈیا میڈیا ہاوسز نے ملازمتوں سے نکال باہر کیا جسکے نتیجہ میں صحافیوں میں اصطراب اور بے چینی پھیل گئی۔
پی ٹی آئی حکومت کے دور میں متعدد صحافیوں کو اُن کے گھروں سے اغواء کیا گیا اور بعد ازاں صحافیوں کے احتجاج پر اُن کی رہائی عمل میں آئی ان صحافیوں کو اغواء کرنے والا کون تھا آج تک اس بارے میں نہ تو رہائی پانے والے صحافیوں نے لب کشائی کی اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس بارے میں کوئی وضاحت دی۔
فیک نیوز کے حوالے سے وزیر اعظم موصوف کے تحفظات کافی حد تک درست ہیں لیکن فیک نیوز کی اصل جڑ سوشل میڈیا ہے جہاں جو جسکی چاہتا ہے اسکی پگڑی اچھال دیتا ہے اس مادر پدر آزادی کے باعث نہ صرف وزیر اعظم عمران خان بلکہ خواتین صحافیوں کو بھی شدیداعتراضات ہیں۔
ہم ان کالموں کے ذریعے وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری سے گزارش کریں گے کہ وہ فیک نیوز کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر لائحہ عمل طے کریں اور اتفاق رائے سے قانون سازی کریں تاکہ پاکستانی آئین کے آریٹکل 19کے تحت اظہار رائے کی آزادی متاثر نہ ہو۔