حکومت پنجاب کی ڈیڈ لائن کے باوجود صوبے کی 41 شوگر ملوں میں سے صرف 5 نے کرشنگ کا آغاز کیا
پنجاب میں چینی کی پیداوار کے لیے کرشنگ سیزن کے آغاز کا معاملہ اس سال بھی شدید تنازع کا شکار ہوگیا
دوسری جانب شوگر ملز مالکان نے حکومت پنجاب کے نوٹیفکیشن کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے حکمِ امتناعی حاصل کرلیا
چنی گوٹھ (نامہ نگار) پنجاب میں چینی کی پیداوار کے لیے کرشنگ سیزن کے آغاز کا معاملہ اس سال بھی شدید تنازع کا شکار ہوگیا ہے۔ حکومت پنجاب کی جانب سے شوگر ملز کو 15 نومبر سے کرشنگ شروع کرنے کا باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، مگر یہ نوٹیفکیشن شوگر ملز مالکان کے سامنے بے اثر ثابت ہوا۔ صوبے کی بیشتر شوگر ملز نے حکومتی احکامات ماننے سے انکار کرتے ہوئے سیزن کے آغاز میں تاخیر کردی۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ سیزن میں ملوں نے سستے داموں گنا خریدا لیکن اس کے باوجود عوام کو سستی چینی فراہم نہ کی جاسکی۔کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ کھاد، ڈیزل، بجلی، زرعی ٹیوب ویل اور لیبر کے اخراجات میں 100 گنا تک اضافہ ہوچکا ہے، مگر گنے کے نرخ اس بڑھتی مہنگائی کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔ اس کے ساتھ کرشنگ میں تاخیر کسانوں کو ناقابلِ برداشت مالی نقصان سے دوچار کررہی ہے۔حکومت پنجاب کی ڈیڈ لائن کے باوجود صوبے کی 41 شوگر ملوں میں سے صرف 5 نے کرشنگ کا آغاز کیا ہے۔ دوسری جانب شوگر ملز مالکان نے حکومت پنجاب کے نوٹیفکیشن کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے حکمِ امتناعی حاصل کرلیا ہے۔ عدالت عالیہ نے 17 نومبر کو فریقین کو طلب کر رکھا ہے اور حکم امتناعی کے دوران حکومت پنجاب کو ملوں کے خلاف کسی بھی زبردستی یا دباؤ پر مبنی کارروائی سے روک دیا گیا ہے۔
زرعی حلقوں کا کہنا ہے کہ پنجاب کی 40 کے قریب شوگر ملز کے مفادات کے تحفظ کے لیے لاکھوں گنے کے کاشتکاروں کی محنت اور سال بھر کی کمائی داٶ پر لگا دی گئی ہے۔ ماضی میں بھی کاشتکاروں کی طرف سے زرعی مداخل کی قیمتوں میں اضافے اور اجناس کے کم نرخوں کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں میں عدالتوں نے انہیں متعلقہ محکموں سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا، مگر عملی طور پر کاشتکاروں کے مسائل جوں کے توں برقرار ہیں۔کاشتکاروں نے وزیرِاعلیٰ پنجاب، کین کمشنر اور متعلقہ اداروں سے اپیل کی ہے کہ کرشنگ سیزن بروقت شروع کرانے، منصفانہ نرخ مقرر کرنے اور شوگر ملز مافیا کے خلاف مؤثر اقدامات کیے جائیں تاکہ لاکھوں کسان معاشی بدحالی سے بچ سکیں

