صحافیوں اور دیگر میڈیا سے وابستہ افراد کے تحفظ کے لیے قائم سندھ کمیشن فار دی پروٹیکشن آف جرنلسٹس کا اجلاس

سکھر پولیس کے نمائندے کی نصراللہ گڈانی اور جان محمد مہر کے مقدمات پر بریفنگ کمیشن کے اراکین ڈاکٹر جبار خٹک اور ڈاکٹر توصیف احمد خان نے پولیس رپورٹ کو ناقابل قبول اور مایوس کن قرار دیا۔
سندھ میں کام کرنے والے تمام میڈیا ہاؤسز کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ صحافیوں کے لیے لازمی حفاظتی تربیت اور ان کی زندگی کا انشورنس کروائیں۔چیئرمین اعجاز احمد میمن
کراچی (6 اگست 2025): صحافیوں اور دیگر میڈیا سے وابستہ افراد کے تحفظ کے لیے قائم سندھ کمیشن فار دی پروٹیکشن آف جرنلسٹس کا اجلاس آج چیئرمین اعجاز احمد میمن کی زیر صدارت سندھ آرکائیوز میں گذشتۃ شام منعقد ہوا۔ اجلاس میں سیکریٹری انسانی حقوق خالد چاچڑ، سیکریٹری اطلاعات کی نمائندگی کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز اطلاعات ڈاکٹر معیزالدین پیرزادہ، ڈاکٹر جبار خٹک(کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس سے مظہر عباس، سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی نمائندگی میں ڈاکٹر توصیف احمد خان، آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے قاضی اسد عابد، اور کمیشن کےسیکریٹری سعید میمن نے شرکت کی۔
اجلاس میں سندھ میں صحافیوں کو درپیش چیلنجز اور ان کے حل پر غور کیا گیا۔ خصوصی طور پر سکھر ڈویزن سے نصراللہ گڈانی، جان محمد مہر اور حیدر مستوئی کے مقدمات پر توجہ مرکوز کی گئی۔کمیشن نے سکھر پولیس کے نمائندے ایس پی لیگل فدا حسین سولنگی کو اجلاس میں طلب کیا تھا، جنہوں نے نصراللہ گڈانی کیس سے متعلق بتایا کہ تین ملزمان اصغر لُند، عبداللہ لُند اور برکت لُند نامزد ہیں؛ جن میں سے پہلا گرفتار ہے، دوسرا عدالت سے ضمانت پر ہے جبکہ تیسرا مفرور ہے۔ مزید تین افراد: خالد لُند، شہباز لُند اور نور محمد لُند ابتدا میں معاون جرم نامزد کیے گئے تھے مگر بعد ازاں 9 مئی 2024 کو سکھر کی ہائیکورٹ بینچ کی ہدایت پر بنائے گئی ایس ایس پی شہید بے نظیرآباد تنویر حسین ٹنیو کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی ٹیم نے انہیں بے گناہ قرار دیا ۔ پولیس نے اصغر لُند، عبداللہ لُند اور برکت لُند کے خلاف چالان انسدادِ دہشتگردی عدالت میرپور ماتھیلو میں داخل کیا، جس کی سماعت 5 اگست 2025 کو مقرر تھی۔
کمیشن کے اراکین ڈاکٹر جبار خٹک اور ڈاکٹر توصیف احمد خان نے پولیس رپورٹ کو ناقابل قبول اور مایوس کن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ خاندان کو مسلسل دھمکیاں دی جا رہی ہیں کیونکہ ملزمان بااثر ہیں، جبکہ برکت لُند تاحال آزاد گھوم رہا ہے۔ انہوں نے پولیس کی غیر جانبدار ی پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ انصاف کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سندھ ہائیکورٹ کیس کو کراچی منتقل کرے تاکہ دباؤ سے آزاد ماحول میں انصاف ممکن ہو۔ ڈاکٹر توصیف نے کہا کہ اگر متاثرہ خاندان درخواست واپس بھی لے لے تو بھی کمیشن کا دائرہ اختیار برقرار رہے گا۔کمیشن نے پولیس کی جانبداری پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور ہدایت کی کہ برکت لُند کو بلا تاخیر گرفتار کیا جائے۔
مزید برآں، صوبائی سینئر وزیر محترم شرجیل انعام میمن کی ہدایت کی روشنی میں، چیئرمین اعجاز احمد میمن نے قانون میں مجوزہ ترامیم کا مسودہ کمیشن کے سامنے پیش کیا، جن میں کمیشن کے احکامات کی عدم تعمیل پر تادیبی اختیارات ، دو خواتین اراکین اور AEMEND (ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا نیوز ایڈیٹرز و ڈائریکٹرز) سے ایک نمائندہ شامل کرنا، اور غیر سرکاری اراکین کی مدت ایک سال سے بڑھا کر تین سال کرنے کی تجاویز شامل تھیں۔ کمیشن نے تمام ترامیم متفقہ طور پر منظور کر لیں۔ کمیشن نے مالی سال 2024-25 کے بجٹ اخراجات کی بھی منظوری دی۔
چیئرمین اعجاز احمد میمن نے کمیشن کو آگاہ کیا کہ سندھ میں کام کرنے والے تمام میڈیا ہاؤسز کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ صحافیوں کے لیے لازمی حفاظتی تربیت اور ان کی زندگی کا انشورنس کروائیں۔ اس کے علاوہ ان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ادارے میں کام کرنے والے صحافیوں کا ڈیٹا کمیشن کو فراہم کریں تاکہ پالیسی سازی میں بہتری لائی جا سکے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ میڈیا مالکان کو صوبائی حکومت کی کم از کم اجرت پالیسی پر عملدرآمد کے لیے بھی پابند کیا گیا ہے، جیسا کہ صوبائی سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی جانب سے ہدایت دی گئی تھی۔
آخر میں، پی ایف یو جے اسلام آباد کے رہنما افضل بٹ اور آصف بشیر چوہدری نے کمیشن کے سیکریٹریٹ کا دورہ کیا اور اراکین سے ملاقات کی۔ انہوں نے سندھ حکومت کی جانب سے صحافیوں کے تحفظ کے لیے مضبوط ادارہ قائم کرنے پر خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ایسے ادارے ملک کے دیگر صوبوں میں بھی قائم کیے جانے چاہئیں۔