Advertisements

پاکستان میں کرپشن مستقل چیلنج، اشرافیہ پالیسیوں پر قابض

Advertisements

اداریہ — 22 نومبر 2025

پاکستان میں کرپشن ایک مسلسل بڑھتا ہوا بحران بن چکا ہے، جسے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں نہایت واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سیاسی اور معاشی اشرافیہ نے ریاستی پالیسیوں پر اس قدر گرفت مضبوط کر رکھی ہے کہ معاشی ترقی کے بنیادی عوامل بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ آئی ایم ایف نے پاکستان میں بدعنوانی کے تسلسل کو ملکی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہوئے 15 نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا فوری نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

Advertisements

رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ سرکاری اداروں کو دی جانے والی خصوصی مراعات ختم کی جائیں، ’’ایس آئی ایف سی‘‘ کے فیصلوں میں شفافیت لائی جائے اور حکومت کے مالیاتی اختیارات پر سخت پارلیمانی نگرانی کی جائے۔ تمام سرکاری خریداری کو اگلے بارہ ماہ میں ای گورننس سسٹم پر منتقل کرنے کی تجویز بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔

آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی اشرافیہ نے اپنے مفادات کے لیے قومی پالیسیوں کو یرغمال بنا رکھا ہے، جس سے ترقی کی رفتار کم اور معاشی خسارہ زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ ٹیکس نظام کی پیچیدگی اور کمزور عدالتی ڈھانچہ صورتحال کو مزید سنگین بنا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بہتر گورننس سے پاکستان کی معیشت آئندہ پانچ برسوں میں 6.5 فیصد تک ترقی کر سکتی ہے—یہ وہ فائدہ ہے جو صرف بدعنوانی کے خاتمے اور شفافیت کے فروغ سے حاصل ہو سکتا ہے۔

شوگر سیکٹر کی مثال اسی بدانتظامی کی واضح تصویر ہے، جہاں شوگر مل مالکان نے ذخیرہ اندوزی، ملی بھگت اور برآمدی پالیسیوں پر اثر انداز ہو کر اربوں روپے کا بوجھ عوام پر ڈال دیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2019 میں چینی کی برآمد کی اجازت نے قیمتوں میں مصنوعی اضافہ پیدا کیا، جس کا براہِ راست فائدہ چند طاقتور گروہوں کو پہنچا۔

عدالتی نظام میں پرانے قوانین، تاخیر اور دیانتداری کے مسائل کے باعث نہ تو معاہدوں کا نفاذ یقینی ہے اور نہ ہی جائیداد کے حقوق کا مکمل تحفظ ممکن ہے۔ یہی عوامل معیشت اور قانون کی حکمرانی دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان فیصلہ کرے: کیا ہم بدعنوانی کے اس دائمی بحران کو ختم کرنے کے لیے حقیقی اصلاحات پر آمادہ ہیں، یا پھر اشرافیہ کی گرفت اور کمزور گورننس کے ساتھ معاشی تنزلی کا سفر جاری رکھیں گے؟ یہ لمحہ قیادت اور اداروں دونوں کے لیے ایک تاریخی آزمائش ہے۔