اخبار پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

ہمیں 6 دن کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے ناکہ ساڑھے 4 دن کی, چیف جسٹس کا جسٹس اعجازالاحسن کو جوابی خط

Justice Faiz Essa replies Justice EjazulHassan allegations

اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس اعجاز الاحسن کے لکھے گئے خط پر جواب میں کہا ہے کہ مجھے آپ کا خط موصول ہوا جس پر بہت مایوسی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے جوابی خط میں لکھا کہ ’آپ (جسٹس اعجاز الاحسن) نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی ورکنگ پر تحفظات کا اظہار کیا، آپکا الزام ہے کہ بنچز کی تشکیل سے قبل مشاورت نہیں کی گئی جبکہ میرے دروازے سپریم کورٹ کے تمام ججز کیلئے کھلے ہیں، آپ نے اپنے تحفظات کیلئے نہ تو مجھ سے انٹر کام کے زریعے بات کی نہ مجھ سے رابطہ کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ آپ کا خط موصول ہونے پر میں نے فوری آپ سے انٹر کام پر رابطہ کیا لیکن جواب نہ ملا، میری ہدایت پر اسٹاف نے اپکے آفس سے رابطہ کیا تو بتایا گیا اپ جمعہ کے روز لاہور کیلئے نکل چکے ہیں، آپ ورکنگ ڈے پورا کیے بغیر لاہور گئے، ہمیں چھ دن کام کرنے کی تنخواہ ملتی ہے،ہمیں چار دن اور ایک آدھے دن کی تنخواہ نہیں ملتی۔

چیف جسٹس نے جوابی خط میں لکھا کہ ایک جج کی اولین ذمہ داری عدالتی امور کی انجام دہی ہے، میٹنگ جمعہ کے دن شیڈول کی گئی،آپ کی درخواست پر کمیٹی میٹنگ جمعہ کے بجائے جمعرات کو دوبارہ شیڈول کی گئی، اب مجھے لگ رہا ہے کمیٹی میٹنگ کو ری شیڈول کرنا میری غلطی تھی، اگر مشاورت کے عمل کو نہ کرنا تو کیا حکم امتناعی کے باوجود آپ اور جسٹس سردار طارق سے مشاورت اپنے اوپر لازم کرتا، آپکو یاد دلاتا چلوں میں جب اٹھارہ ستمبر کو چیف جسٹس پاکستان بنا تو پہلے آرڈر میں آپ سے اور جسٹس سردار طارق مسعود سے مشاورت کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا کہ آپکے غیر ضروری الزامات کے جوابات دینے سے قبل یاد دلانا چاہتا ہوں کمیٹی کا پہلا اجلاس آپکی عدم دستیابی کے سبب تاخیر کا شکار ہوا، نو نومبر کو اس لیے آپ کی وجہ سے دوسرا کمیٹی اجلاس نہ ہو سکا کیونکہ آپ ہانک کانگ میں ایک کانفرنس میں شریک تھے، سولہ نومبر والی کمیٹی میٹنگ آپ کے کہنے پر ملتوی ہوئی کیونکہ آپ کے ساتھی بیمار تھے، میری وجہ سے آج تک کمیٹی اجلاس ملتوی نہیں ہوا۔

خط میں چیف جسٹس نے لکھا کہ ’سردیوں کی چھٹیوں می میں دو بنچز تشکیل دیے گئے،میں آپ (جسٹس اعجاز الاحسن) کو یاد دلاتا چلوں ایک بنچ میں آپکے ساتھ جسٹس مظاہر تھے، آپ نے کہا جسٹس مظاہر نقوی کا کیس کونسل میں ہے، میں ان کے ساتھ بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہتا، بنچز کی تشکیل سے عیاں ہے تمام ججز کیساتھ مساوی برتاؤ کیا جا رہا ہے، آپ کے الزامات حقائق اور ریکارڈ کے منافی ہیں،اگر آپکی تجاویز ہیں تو تحریری صورت میں دیں تاکہ کمیٹی اجلاس بلا کر ان کا جائزہ لیا جاسکے.

مزید پڑھیں