بھٹو یوں زندہ ہے
آج بروز ۵ جنوری پاکستان سمیت دنیا بھر میں ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر مختلف تقریبات میں بھٹو شہید کی سیاسی اور قومی خدمات کے صلے میں انہیں خراج تحسین پیش کر کے ہم کہتے ہیں کہ بھٹو اپنی بین الاقوامی خدمات کے صلے میں ذندہ ہے۔آج پوری قوم جے ایف سترہ تھنڈر کی پاکستان ائر فورس کے حوالگی کے حوالے سے جشن کی تیاریاں کررہی ہے تو ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ جے ایف سترہ تھنڈر طیارہ پاکستان ائیرو ناٹیکل کمپلیکس کامرہ میں تیار ہوا ہے۔ اور ذوالفقار علی بھٹو شہید کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس ائیرو ناٹیکل کمپلیکس کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو شہید نے رکھی تھی تاکہ قومی دفاع کے ساتھ ساتھ ہماری قومی معیشت کو بھی مظبوط اور مستحکم کیا جاسکے، تو یوں بھٹو ذندہ ہے۔
تیسری دنیا کے مظلوم اور محکوم نہتے غریب اور بے کس انسانوں کو یہ شعور دینا کہ مظلوموں پر ظلم کرنے والے ظالم کے خلاف اپنے حقوق کے حصول کے لئے آواز کیسے بلند کرنی ہے،وہ بھٹو ہے۔سامراج کے خلاف لڑتے ہوئے اپنے حقوق واپس کیسے لینے ہیں۔عالم اسلام کو یکجا کر کے یہ پیغام اور شعور اجا گر کرناکہ عالم اسلام کے خلاف استعماری سامراجی قوتوں کو کیسے ناکام بناتے ہوئے مسلم امہ کے حقوق کی حفاظت کرنی ہے اس کا نام بھٹو ہے۔عالمی استعماری سامراج اور اس کے بغل بچہ جاگیر دار سرمایہ داروں کے خلاف عوامی آواز اًٹھانے والا بھٹو ہے، بھٹو شہیدجو محکوموں کو حاکموں کے خلاف خواب غفلت سے بیدار کرواتا تھا۔بھٹو شہید نے جہاں پاکستان کے غریب کسانوں،مزدوروں،طالبعلموں،دانشوروں کو پیپلز پارٹی کے نام پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ بلکہ پاکستان کو اقتصادی،سماجی،سیاسی،اور دفاعی اعتبار سے مظبوط بنانے کے لئے کارہائے نمایاں سر انجام دئے وہ ناقابل فراموش ہیں۔1973ء کا متفقہ آئین جس پرآج بھی پاکستان میں بسنے والی تمام قومیتیں متفق اور ہم خیال ہیں وگرنہ اس سے قبل بھی دساتیر بنائے گئے لیکن انہیں قوم نے پزیرائی نہ بخشی۔سینٹ آف پاکستان کا ادارہ جس کے ذریعہ آج پاکستان کے چاروں صوبوں کی نمائندگی وفاق میں برابر ہے بھٹو شہید نے ہی قائم کیا۔بھٹو شہید نے پاکستان کے نظام ریاست کو اپنے مسائل کو سلجھانے کے لئے پاکستان کے سیاسی،قانونی اور انتظامی اداروں کی بنیاد رکھی۔وہ ادارے جو آج وفاق پاکستان کے اتحاد اور سلامتی کے ضامن ہیں۔
بھٹو شہید نے پاکستان کے تعلیمی نظام کو بہتر بناتے ہوئے پاکستان کو اقوام عالم میں نمایاں مقام دلانے کے لئے ملک بھر میں میٹرک تک تعلیم کو مفت قرار دیتے ہوئے ملک بھر کے طول وعرض میں میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھی۔ بہاولپور جیسے پسماندہ علاقے میں قائد اعظم میڈیکل کالج اور اسلامی یونیورسٹی جیسے شہرہ آفاق ادارے بھٹو شہید کی علم دوستی کا واضح ثبوت ہیں۔بھٹوشہید کا کمال تھا کہ آپ کی کامیاب خاجہ پالیسی کی بدولت سانحہ پاکستان کے بعد جولائی 1972 ء میں ہندوستان کی قید سے نہ صرف 90 ہزار جنگی قیدی رہا کروائے بلکہ ہندوستان نے جس 95 ہزار مربع میل زمین پر قبضہ کرلیا تھا وہ بھی واگزار کرواکر پاکستان کی حد میں شامل کروایا۔ملک کے طول وعرض میں موجود عوام کی نظریاتی تربیت کے لئے ملک بھر کے پسماندہ علاقوں میں ریڈیو پاکستان کے اسٹیشنز تعمیر کرائے بلکہ پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات کی فراہمی کے لئے بوسٹرز اور علاقائی دفاتر قائم کئے گئے۔
بھٹو صاحب کا سب سے عظیم کارنامہ جو آپ نے اسلامی اْمہ کے لئے سرانجام دیا وہ اسلامی سربراہی کانفرنس کا لاہور میں انعقاد تھا۔اس کانفرنس میں شرکت کے لئے دنیائے اسلام کے عظیم راہنماء یاسر عرفات، شاہ فصل،معمر قذافی۔شاہ حسین،صدر حافظ الاسد شامل تھے بھٹو صاحب کی صدارت میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے اسلامی دنیا کے لئے الگ فورم کی بنیاد رکھنے کا اعلان کیا جس کے بعد اسلامی دنیا کا نام بھی عالمی نقشہ پر اْبھرا۔مسلم سربراہان نے بھٹو صاحب کی تجاویز جس میں اسلامی معیشت کو ترقی دینے کے لئے اسلامی بینک،اسلامی دنیا کی فوج اور بین الاقوامی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ایٹمی قوت کی ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے کوششیں شامل تھیں کے لئے اپنے عزم مصمم کا اظہار کیا جس کی مسلم اْمہ نے نہ صرف بھر پور تائید کی۔بلکہ وسائل بھی حکومت پاکستان کو مہیا کئے۔بھٹو شہید کی کاوشوں کی بناء پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان آکر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے لئے کام کرنے کا فیصلہ کیا اور پھر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری قائم کر کے ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کے لئے ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔یہیں سے ہی عالمی سامراج نہ صرف بھٹو شہید بلکہ پاکستان کے خلاف صف آراء ہوگیا۔امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے اگست 1976 ء میں اپنے دورہ پاکستان کے بعد دو ٹوک الفاظ میں بھٹو صاحب کو اس منصوبہ سے باز رکھتے ہوئے انہیں نشان عبرت بنادینے کی بات کہی۔ یہ محض ایک دھمکی نہیں تھی بلکہ ایک منظم منصوبہ بندی کے بعد بھٹو صاحب کو اقتدار سے الگ کرنے کی سازش پر عمل دعآمد شروع کردیا گیا تھا۔ جس کے جواب میں بھٹو شہید نے امریکہ کو للکارتے ہوئے کہا کہ سفید ہاتھی میں تم سے خوفزدہ ہوکر اپنی قوم اور اسلام سے غداری نہیں کرسکتا۔عالمی سامراج نے اسے اسلامی بم سے تشبیہ دیتے ہوئے بھٹو کے خلاف اپنی سازشوں کے تانے بانے بننے شروع کردئے۔بھٹو شہید کے وژن کی بناء پر اقوام عالم انہیں مصر کے جمال عبدالناصر اور انڈونیشیا کے سوئیکارنو کے ساتھ ملانے لگیں۔۔بھٹو صاحب نے نہ صرف ایٹمی قوت بننے کی بنیاد رکھی بلکہ ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا۔ایرو ناٹیکل انجینئرنگ کمپلیکس کامر ہ جیسے صنعتی ادارے قائم کر کے نہ صرف پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے پیشرفت کی بلکہ ہزاروں افراد کے لئے روز گار کے مواقع مہیا کئے۔آج ہمیں اربوں روپیہ اس صنعتی حیثیت کی بناء پر دیگر اقوام کو اسلحہ اور چھوٹے جہاز فروخت کر کے پاکستان کی معیشت کو مظبوط کررہے ہیں۔ بلکہ اپنی دفاعی ضروریات پوری کرنے میں بھی خود کفیل ہیں۔بھٹو صاحب نے ؑریب عوام کی خوژحالی اور ترقی کے لئے جاگیرداروں سے زمینیں چھین کر غریب کسانوں کو دینے کے لئے ذرعی اصلاحات کے نفاذ کا اعلان کیا۔صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کے مزدوروں کو حقوق دئے۔
بھٹو شہید کی انہی کرشماتی اور ولولہ انگیزکاوشوں نے پاکستان کے غیور عوام کے دل موہ لئے لیکن ساتھ ہی پاکستان کے مْلا،جاگیردار،صنعتکار،اور سامراجی کے حاشیہ بردار فوجی بھٹو شہید کے خلاف صف آراء ہو گئے جنہوں نے امریکی ڈالروں کی برسات میں پی این اے کی نام نہاد تحریک برائے اسلامی نظام شروع کی۔جس کی آڑ میں جنرل ضیاء نے 5 جولائی 1977 ء کی سیاہ رات کو بھٹو صاحب کے خلاف فوجی بغاوت کی اور پاکستان کے آئین کو پچھاڑتے ہوئے سینٹ سمیت دیگر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کر کے بھٹو اور دیگر پارٹی راہنماؤں کو گرفتار کرلیا اور90 روز میں دوبارہ انتخابات کروانے کا وعدہ کیا لیکن یہ وعدہ اس وقت تک ایفا نہ ہوسکا جب تک نام نہاد امیر المومنین بہاولپور کے قریب فضائی حادثے میں جل کر بھسم نہ ہوگیا۔
بھٹو مخالفین سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے انہیں مورد الزام ٹہرانے کے لئے ملک عباس اطہر مرحوم کی اس ذمانے کی شہ سرخی ادھر ہم اْدھر تم کا حوالہ دیتے ہیں۔جس کی تردید میں عباس اطہر نے نہ صرف الیکٹرانک میڈیا بلکہ ایک ورکشاپ میں میرے سامنے بیٹھ کر بھی ہم سے کہا کہ بھٹو شہید نے ایسا کوئی نعرہ نہیں لگایا تھا بلکہ یہ ان کے ذہن کی اختراع کے مطابق محض ایک اخبار کی شہ سرخی تھی۔یعنی یہ صرف بھٹو مخالف اسٹیبلشمنٹ کا نعرہ تھا۔
لیکن سامراجی پٹھو فوجی آمر جنرل ضیاء الحق اپنے غیر ملکی آقاؤں کی مرضی کے خلاف کیسے کوئی عمل کرسکتا تھا۔جنہوں نے بھٹو جیسے عالی لیڈر جس کو دنیا مانتی تھی کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا عزم کررکھا تھا۔اس ظالم ڈکٹیٹر نے 3 اور 4اپریل 1979 ء کی درمیانی رات کو عوام کے مقبول راہنماء ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیکر عوام سے جدا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ صرف بھٹو کو مادی طور پر عوام سے جدا کرسکاآج بھی41 برس گزرجانے کے باوجودلاکھوں عاشقان بھٹو ہر سال ملک کے طول وعرض سے اپنی جیب سے ذاد راہ خرچ کر کے موسم اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کر کے اپنے عظیم قائد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جوق در جوق کھنچے چلے آتے ہیں۔کیونکہ بھٹو نے کہا تھا کہ میں غریبوں کا خادم ہوں مجھے غریبوں نے بنایا ہے اور میں اس سر زمین کی پیدائش ہوں۔اسی لئے بھٹو نے کسی فوجی آمر سے ڈیل کر کے وطن سے فرار ہوکر کسی دوسرے ملک میں پناہ لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے سے قبل کسی ڈکٹیٹر کے ہاتھوں مرنے کو ترجیح دونگا۔اور انہوں نے یہ کر دکھایا اسی طرح بھٹو شہید نے کہا کہِِِ۔۔۔..انسان کی سب سے پیاری متاع اس کی ذندگی ہے کیونکہ یہ اسے صرف ایک بار ذندہ رہنے کے لئے دی جاتی ہے اس لئے اسے اس طرح ذندہ رہنا چاہئے کہ اسے اپنے برے اور بذدلانہ ماضی پر ندامت نہ ہو تاکہ بلا مقصد اذیت برداشت کرکے ذندہ رہنے کی بجائے مرتے ہوئے یہ کہ سکے میں نے اپنی ساری ذندگی اور طاقت دنیا کے نصب العین بنی نوع انسان کی آذادی کے لئے وقف کی تھی،آج نہت سے سیاسی بونے بھٹو کی تقریروں کی نقل کر کے بھٹو بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بھٹو بننے کے لئے قومی سلامتی،ترقی و خوشحالی اور غریب عوام کی فلاح کے لئے پھانسی کے پھندے کو چوم کر گلے لگانا پڑتا ہے،سامراجی استعمار کے پروردہ آمروں سے ڈیل کر کے رات کی تاریکی میں اپنے کارکنوں اور عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ کر،قومی خزانے کو ذاتی اثاثوں میں بدل کر رات کی تاریکی میں ملک سے فرار نہیں ہوا جاتا، قوم ایسے لوگوں کو بھگوڑا اور پھانسی کو چوم کر گلے لگانے والے مجاہدوں کو شہید کہتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شخصیت ہمہ جہت خصوصیات کی حامل تھی۔ایک سابق دوست پارٹی کے سابق راہنماء مسعود خان ایڈووکیٹ جو سابق سینیٹر تھے نے بتایا کہ بھٹو شہید بین الاقوامی دوروں کے درمیان اپنے اراکین کی سماجی اور اخلاقی تربیت بھی کرتے تھے وہ نہ صرف اپنے سادہ ساتھوں کو چھری کانٹے کا استعمال سکھاتے بلکہ سرکاری ضیافتوں میں جانے سے قبل اپنے اراکین کو کھانا کھلا کر لیجاتے اور دعوت میں کم کھانے کی بھی تلقین کرتے تاکہ بحیثیت پاکستانی قوم ہمارا تشخص ایک بہتر قوم کے طور پراًجاگر ہو۔
ایک مرتبہ بھٹو شہید دورہ سعودی عرب میں وہاں کی سب سے بڑی آئل ریفارمری جسکا انتظام وانصرام برطانوی کمپنی کررہی تھی کے دورہ کے دوران سگار پینے کی فرمائش کی،جس پر برطانوی اہلکاروں کے ہوش اًڑ گئے کہ ایسا کرنے سے ریفائنری میں آگ بھڑ ک اًٹھتی اس لئے برطانوی اعلی افسر نے معزرت کی لیکن شاہ فیصل نے کہا کہ بھٹو صاحب سگار پئیں گے، ریفائنری بند کردی جائے جس پر برطانوی افسر بولا کہ ایسا کرنے سے کثیرمالی نقصان ہوگا،بھٹو صاحب مسکرائے اور فرمایا کہ چند منٹوں میں تم لوگ اتنا روپیہ کما لیتے ہو اور سعودی حکومت کو سالانہ اتنا کم منافع دیتے ہو،جس پر شاہ فیصل نے فوری طور پر برطانوی کمپنی سے معاہدہ منسوخ کر کے نئے سرے سے نئی شرائط پر معاہدہ کیا،یہ ایک مثال بھٹو شہید کے دوراندیشانہ فکر اور سوچ کی ہے کہ کس طرح کمال دانشمندی سے انہوں نے برطانوی سامراج کے چنگل سے سعودی عرب کو بچا کر عربوں کی تیل کی دولت کو لٹنے سے بچایا۔
پاکستان چین کی دوستی کو ہمالیہ کی ظرح مظبوط اور مستحکم بنانے کے لئے بھٹو شہید اور ماؤزے تنگ و چو این لائی کی کاوشیں ناقابل فراموش ہیں۔ ہر دکھ سکھ میں ہمارے ساتھ کھڑے رہنے والے عظیم چین کے ساتھ ملکر جس معاشی راہداری کے سر پر آج پاکستان میں موٹروے،گوادر بندرگاہ،بجلے کے کارخانے اور دیگر صنعتی زونز بنائے جارہے ہیں۔ وہ سب پاک چین دوستی کا نتیجہ ہیں،
اسی لئے آج بھی دنیا بھر کے کوچے کوچے اور کونے کونے سے صدا آتی ہے،ذندہ ہے بھٹو ذندہ ہے۔؛؛جب تک سورج چاند رہے گا بھٹو تیرا نام رہے گا۔آج بھی ذوالفقار علی بھٹو شہید کا نواسہ بلاول بھٹو ذرداری بھٹو شہید کی سیاسی وراثت کو لیکر ملک بھر کے عوام کی خدمت کا جزبہ لیکر پاکستان پیپلز پارٹی کا علم بلند کرتے ہوئے عوامی خدمت کے جزبات کی ترجمانی کررہا ہے جبکہ بھٹو شہید کی بیٹی بے نظیر بھٹو بھی نہ صرف2 مرتبہ اس ملک کی وزیر اعظم بنی بلکہ انہیں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اور اسی بھٹو شہید کا داماد اور بے نظیر بھٹو شہید کا شوہر مرد حر آصف علی ذرداری 5 سال تک اس وطن عزیز کے صدر کے طور پر خدمات سرانجام دے چکا ہے۔