Advertisements

بہاولپور کی تاریخ عزا داری

Bahawalpur Ki Treekh Azadari
Advertisements

تحریر: شیخ عزیز الرحمن

سابق ریاست بہاولپورکے حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں ہمیشہ اسلامی روایات اور مذہبی عقائد کا خیال رکھا اور اگر مشاہدہ کیا جائے تو سابق ریاست بہاولپور کے آغاز ریتی صادق آباد تا بہاولنگر میں تمام ریلوے اسٹیشن گنبد نما بنے ہوئے ہیں جو یہاں کے حکمرانوں کی اسلامی طرز تعمیر اور اسلام سے نسبت کی عکاس ہے۔ سابق ریاست بہاولپور میں ماہ رمضان میں پورا رمضان آرڈیننس کی سرکاری سطح پر پابندی ہوتی تھی اور محرم الحرام کے 10 ایام میں سنیما گھروں پر پابندی تھی اور یہاں پر تمام مسالک اور مذاہب کے افراد کو اپنے اپنے مذہب و عقائد کے مطابق پوری آزادی تھی۔

Advertisements

مرزائیوں کو کافر قرار دینے کا تاریخی فیصلہ بھی اسی حکومت مملکت خداداد بہاولپور میں جسٹس محمد اکبر ؒ نے 1935؁ء میں دیا تھا۔ جب حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی پشت سے 19ویں لڑی سے پیر سید لعل شاہ موسوی المشہدی کاظمی نے بہاولپور میں امام بارگاہوں کی بنیاد رکھی، روایات کے مطابق بہاولپور میں تعذیہ داری کی تاریخ 220 سال پرانی ہے اور ریاست بہاولپور میں نواب آف بہاولپور دوئم کے اقتدار میں سید خادم علی شاہ نے پہلی امام بارگاہ کی بنیاد رکھی۔ جس کی اجازت نواب آف بہاولپور نے دی اور یہ سلسلہ جاری رہا۔


تحصیل احمدپورشرقیہ میں عزاداری کا مرکز اوچشریف بھی ہے۔ جو قدیمی تاریخی اور سوا لاکھ اولیاء کا مسکن رہا ہے۔ یہاں پر قریباً220 سال سے حسن دریا نامی گاؤں میں دربار حضرت کبیر الدین حسن دریا کا مزار ہے۔ جہاں پر قدیمی جلوس نکالا جاتا ہے۔ 200 سال پرانی جلسہ گاہ محلہ خواجگان اوچشریف ہے۔ امام بارگاہ مخدوم سید نوبہار حسین میں قریباً 60سالوں سے عزاداری ہوتی چلی آرہی ہے۔ مخدوم الملک سید غلام اصغر بخاری المعروف اچھی سائیں مرحوم کے بنگلہ بخاری میں 60 سالوں سے قدیمی ہوتی ہے۔ دربار حضرت جلال الدین بخاری سرخپوش ؒ آگ پر ماتم اور زنجیر زنی کا مرکز ہے۔ امام بارگاہ محلہ خواجگان کی بنیاد 45 سال قبل رکھی گئی۔ بڑا امام بارگاہ اوچشریف کے بانی خلیفہ خواجہ اللہ بخش مرحوم تھے تقریباً 75 برس قبل اس کا قیام ہوا مخدوم نوبہار سائیں کے بھتیجے مخدوم سید غلام عباس مرحوم نے 70 سال قبل امام بارگاہ سائیں غلام عباس کا سنگ بنیاد رکھا۔ امام بارگاہ زینبیہ کے بانی خلیفہ مقبول حسین تھے جو قیام پاکستان سے قبل تعمیر کی گئی۔ امام بارگاہ محلہ گیلانی مخدوم سید شمس الدین گیلانی کی والدہ کی منت پوری ہونے پر قیام پاکستان سے قبل تعمیر کرائی گئی۔ محلہ نواز آباد میں ایک امام بارگاہ قائم ہے۔ جس کے بانی سید قیصر عباس شاہ تھے۔ اسکے علاوہ جامعہ الزھراء بچیوں کی دینی درسگاہ اور مدرسہ جعفریہ عزاداری کا سنگ میل ہے۔


احمدپورشرقیہ میں قدیم ترین امام بارگاہوں میں محلہ کٹڑا احمد خاں میں آستانہ بوہڑ والا متولی سید ظفر حسین شاہ۔ آستانہ سونہانڑے شاہ متولی باقر حسین چغتائی۔ محلہ شکاری ریلوے روڈ پر امام بارگاہ غریب الوطن جسکے متولی سید غلام حسین شاہ اور مرکزی دربار حضرت سید نور شاہ بخاری و جامع مسجد جعفریہ پر سید مظفر شاہ اور سید حسنین عسکری عزاداری کراتے ہیں۔ جبکہ امام بارگاہ فیض پنجتن اور آستانہ سید مشتاق شاہ رضا حسینی کا انتظام جاوید حسین جعفری کرتے ہیں۔ آستانہ مشتاق شاہ کا قیام احمدپورشرقیہ سے تعلق رکھنے والی فلمی اداکارائیں انجمن، نیلی اور گوری کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ خدا بخش نے کیا تھا۔ محلہ سرور اہ میں امام بارگاہ 112 امام المعروف مٹری کا انتظام حاجی ریاض حسین سابق صدر صرافہ کرتے ہیں۔ آستانہ کالے شاہ محلہ پھلو رام کے متولی سید مطلب شاہ، 1957؁ء سے حاجی سید سعید علی شاہ بخاری مرحوم نے قصر زین العابدین کی بنیاد رکھی۔ جس کا انتظام سید تنویر بخاری اور سید باقر شاہ کرتے ہیں۔ قدیمی آستانہ غلام علی شاہ محلہ شکاری قیام پاکستان سے قبل سے سید جند وڈہ عرف سید جنڈن شاہ نے قائم کیا۔ جسکے سید لعل شاہ متولی ہیں۔ آستانہ چاہ بہادر شاہ محلہ کٹڑ ا احمد خان کے متولی سید غلام علی شاہ اور سید ساجد بخاری نقوی۔ مسجد سجادیہ حسینیہ محلہ کٹڑا احمد خان کے علاوہ ڈیرہ نواب صاحب میں آستانہ منظور حسین شاہ۔ آستانہ شوکت شاہ متولی سید ضمیر حسین شاہ شمسی۔ آستانہ عنایت شاہ کے لائسنس دار سید اسجد عباس۔ آستانہ سید عاشق حسین المعروف کوکے شاہ کے علاوہ انجمن شباب علی اکبر علیہ السلام مرکزی امام بارگاہ ڈیرہ نواب صاحب پر مجالس کا انتظام کیا جاتاہے۔

دیگر امام بارگاہوں میں امام بارگاہ رضویہ محلہ نور شاہ بخاری کے متولی صدام حسین سید مبین شاہ۔ نواحی علاقہ سکھیل میں امام بارگاہ سید الشہدا ء کے متولی خان محمد کلاچی اور سید ساجد بخاری کے علاوہ سکھیل کےاطراف میں امام بارگاہ جھوک۔ امام بارگاہ آستانہ سید ملوک شاہ اور جانو والا میں مخدوم سید ذوالفقار بخاری اور سید نسیم شاہ کی سرپرستی میں امام بارگاہ زینبیہ عزاداری کا مرکز ہے۔ امام بارگاہ شاہ مردان محلہ نور شاہ بخاری کے متولی غلام عباس بھٹہ ہیں۔ ٹبی ڈھکواں میں اما م بارگاہ 12 ویں سرکار کا قیام خواجہ برادران نے کیا اور اس کے متولی خواجہ محبوب الحسن ہیں۔ موضع محمد بخش مہر میں امام بارگاہ باب الحراج امام موسیٰ کاظم قائم ہے جہاں 3 جلوس دن رات نکالے جاتے ہیں۔ جسکے متولی سید گل حسین شاہ بخاری ہیں۔ اسکے علاوہ ضلع بھر میں مختلف علاقوں میں امام بارگاہیں عزاداری کے فروغ کا منبع ہیں۔


یہاں کے خاندان عباسیہ جو قبل ازیں بغداد سے ہجرت کرکے 762ھجری میں سندھ میں آباد ہوئے اور بعد ازاں مختلف ادوار کے بعد 22 فروری 1833؁ء میں نواب محمد بہاول خاں نے انگریز حکومت سے اپنی خود مختیاری کا معاہدہ کیا اور یہیں سے خاندان عباسیہ کی حکومت کا سلسلہ شروع ہوا۔ سید اولاد علی گیلانی ”مرقع ملتان“ میں موسوی خاندان اور عزا داری کے حوالے سے ریاست بہاولپور میں عزاداری کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ ”پیر سید لعل شاہ موسوی المشہدی حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے 19 ویں پشت پر ہیں اور تبلیغ اسلام اور عزاداری کے سلسلہ میں کوہ ہمالیہ سے چل کر مغربی پنجاب کے اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان۔ڈی جی خان۔ جھنگ۔ملتان اور ریاست بہاولپور آئے۔ آپ کے بے شمار مریدین تھے آپ نے 46 امام بارگاہیں اور کئی مساجد کا سنگ بنیاد رکھا اور اپنی کتاب”کربل نگری“ میں رقمطراز ہیں کی جن حضرات نے واقعہ کربلا کی اشاعت پر خصوصی توجہ دی ان میں شیر شاہ جلال الدین بخاری آف اوچشریف اور ان کے بھائی علی راجن قتال اور حسن کبیر الدین اور ملتان میں سید یوسف گردیز اور شاہ شمس سبزواری کے نام نمایاں ہیں۔ مندرجہ بالا حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ بہاولپور میں عزا داری کا آغاز دوسری صدی ہجری سے ہوچکا تھا۔ حضرت فصیح الدین۔۔ سید جند وڈہ شاہ پہلے سجادہ نشین اوچ بخاری تھے جنہوں نے مسلک شیعہ کو سندھ سے لاکر اوچشریف اور ریاست بہاولپور میں عروج بخشا اور اپنے بزرگوں کے مذہب سنت الجماعت حنفی و طریقہ و ترک کرکے مسلک شیعہ اختیار کیا اور رسم تعزیہ داری کا اوچشریف میں رواج ڈالا جو تاحال جاری ہے۔ 1802؁ء میں سید روشن علی شاہ بخاری کے جد امجد سید خادم حسین شاہ نے بہاولپور میں پہلی امام بارگاہ کی بنیاد رکھی۔ جس کا باقاعدہ اجازت نامہ نواب آف بہاولپور سے حاصل کیا گیا۔ بعد ازاں 1853؁ء میں سید نور شاہ بخاری نے امام بارگاہ کی بنیاد رکھی اور پہلی بار انگریز حکومت میں 9 و 10 محرم الحرام کے جلوس کا اجازت نامہ حاصل کیا گیا۔ 1860؁ء میں پہلی بار حضرت قاسم علیہ السلام کی مہندی کی رسوم عزاداری کے مطابق بہت بڑا جلوس نکالا گیا۔ جو آستانہ روشن علی شاہ سے شروع ہوکر مختلف راستوں سے ہوتا ہوا احمد علی شاہ کے گھر اختتام پذیر ہوا۔1872؁ء سے 1875؁ء تک جب تاریخی نور محل کی تعمیر ہوئی تو اس کے کاریگر ایران سے آئے۔ جنہوں نے مجالس عزاء پڑھیں اور 10محرم کا جلوس برآمد ہوا۔ جو نور محل سے شروع ہوکر چوک فوارہ پر اختتام پذیر ہوا۔ 1890؁ء میں امام بارگاہ کی بنیاد سید حسن علی شاہ المعروف پیالی شاہ نے رکھی۔ جن کا شمار عزا داری بہاولپور کے بانیوں میں ہوتاہے۔ 1900؁ء میں بہاولپور کے ایک سیشن جج سید امام علی شاہ گردیزی نے محرم الحرام کی مجلس عزا شروع کی اور اسی نے یہاں پر مجلس و جلوس کے لائسنس جاری کرائے۔ 1924؁ء میں نواب آف بہاولپور کی تاج پوشی پر انہوں نے عزا داروں کیلئے چاندی کا تعزیہ بنوایا اور ہر سال مجالس میں امداد بھی دی۔ 1930؁ء میں انجمن حسینیہ معین واعظین بہاولپور کا قیام ہوا جس کے ذریعے عزادار ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے۔ 1945؁ء میں شیعہ مسجد کیلئے جگہ خرید کی گئی اور 1947؁ء میں قیام پاکستان کے بعد مہاجرین سادات و مومنین کی بڑی تعداد ہجرت کر کے بہاولپور آئی۔ اس دور میں سید محب حسین شاہ نے بے لوث خدمات سرانجام دیں اور عزا داری کے فروغ اور ماتمی جلوس کیلئے 1972-73؁ء میں باقاعدہ لائسنس حاصل کیا۔ 1977؁ء میں ملان روڈ پر ملک امیر بخش نے برلب سڑک ایک عظیم الشان امام بارگاہ تعمیر کرائی اور میاں ریاض حسین پیرزادہ ایم این اے کے والد میاں شاہ نواز پیرزادہ اور اصغر عزیز میاں نے عزا داری کیلئے بھرپور کام کیا۔

بہاولپور میں تقریباً400 سے زائد مقامات پر مجالس اور ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ جن میں اکثر لائسنس دار تعزیہ اہلسنت افرا د پر مشتمل ہیں۔ بہاولپور میں قدیم ترین مہندی کا جلوس سال 1860 سے اور 26تا28 رجب المرجب کو خطہ پاک اوچشریف میں اجبی منعقد ہوتی ہے جو تقریباً150 سالوں سے جاری ہے۔ سابق ریاست بہاولپور کیی علاقوں احمدپورشرقیہ، نواحی دیہات جانو والہ، پپلی راجن، تھیجی،سکھیل و دیگر علاقوں میں عزا داری پورے جوش و خروش سے منعقد کی جاتی ہے۔ ضلع بہاولپور کی سب سے بڑی تحصیل احمدپورشرقیہ میں بھی عزا داری کی تاریخ قدیم ترین ہے اور یہاں پر قدیمی محلہ کٹڑا احمد خان میں کئی صدی قبل نواب احمد خان ملزئی افغانستان سے ریاست بہاولپور آئے تو ان کے ساتھ سادات بخارا اور سادات ہرات کی کافی تعداد ہمرکاب تھی۔ ان سادات کیلئے نواب احمد خان ملزئی نے ایک جگہ آستانہ بوہڑ والا مخصوص کیا اور آستانہ ؎ شاہ موجودہ محلہ صفرانی سے اہلسنت افراد کی جانب 10 محرم کا تعزیہ و جلوس برآمد ہوتا ہے۔ نواب احمد خان ملزئی ریاست بہاولپور میں وزیر اور کمانڈر تھے اور نواب آف بہاولپور سے ملتان میں فوجی مسئلے پر اختلاف ہوئے اور جنگ و جدل و معاملہ قتال پر موقوف ہوا۔ سرکاری ریاستی فوجوں نے نواب آف ملزئی کا محاصرہ کرلیا اس وقت سادات برادری نے نواب احمد خان کا ساتھ دیا مگر جنگی جھڑپ میں نواب احمد خان اپنے 2بھائیوں سمیت مارے گئے جن کی اجتماعی قبر ڈیرہ نواب صاحب میں موجود ہے۔ اس واقعہ کے بعد سادات اور عزا داری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور کچھ عرصہ تک عزاداری کا سلسلہ موقوف ہوگیا۔ عرصہ بعد محلہ نور شاہ بخاری کے سادات جو سید نور شاہ بخاری ؒ کی اولاد تھی جن میں سید سعید علی شاہ ولد سید شہباز شاہ اور سید بہاول شاہ ولد سید حسن علی شاہ نے 1924؁ء میں کونسل آف ایجنسی سے لائسنس ہائے عزا داری حاصل کئے اور پھر ریاست کی طرف سے لنگر بھی آتا تھا۔ اس وقت 9کے قریب تعزیہ، زوالجناح اور علم کے لائسنس جاری ہوئے۔

احمدپورشرقیہ میں محلہ کٹڑا احمد خان آستانہ بوہڑ والا۔ محلہ صفرانی سے آستانہ مونہانڑے شاہ۔ محلہ حسین آباد سے آستانہ مشتاق حسین۔ آستانہ کالے شاہ۔ آستانہ چاہ بادر شاہ محلہ کٹڑا احمد خان۔دربار حضرت سید نور شاہ بخاری۔ ڈیرہ نواب صاحب سے آستانہ عنایت شاہ۔ آستانہ سید ریاض حسن شاہ۔ مرکزی امام بارگاہ آستانہ درویش والا چوک منیر شہید پر اختتام پذیر ہوتے ہیں جبکہ احمدپورشرقیہ کے علاقہ جانو والہ میں 6محرم الحرام کا سب سے بڑا بٹیرے کا جلوس مخدوم سید ذوالفقار حسین بخاری کی سرپرستی میں نکالا جاتا ہے۔ جبکہ ڈیرہ سردار علی گوہر خان میں سردار عبداللہ خان نتکانی سالانہ 3روزہ،27تا29 محرم الحرام،مجلس عزا برپا کرواتے ہیں۔ جسمیں ملک بھر سے بڑے عالم۔ ذاکر اور شاعر شرکت کرتے ہیں۔ محلہ حسین آباد ہاتھی بازار میں ہندو ڈاکٹر گوبند رام کی منت پوری ہوئی۔ جس کے نتیجہ میں اندرون گلیوں میں 10محرم الحرام کو سیج کی جلوس برآمد کیا جاتا تھا جو بعد ازاں مرکزی جلوس میں شامل ہوتا۔ عزا داری کے حوالے سے بہاولپور کی مستورات میں بھی عزاداری کی منفرد حیثیت حاصل ہے۔ 1948؁ء میں محلہ قاضیاں میں ایک خاتون خالی دلی والی نے اپنے مکان کو امام بارگاہ کے نام سے منسوب کرکے خواتین کی عزا داری کا باقاعدہ اہتمام کیا اوربعد ازاں اسی مکان میں بیگم شجاع نے امام بارگاہ برائے خواتین تعمیر کرائی اور اس کانام محمدیہ امام بارگاہ رکھا گیا جسے عرف عام میں مہاجراں والا آستان بھی کہا جاتا ہے اور اس جگہ پر برکات علم و جھولا زیارات موجود ہیں۔ اور عشرہ محرم الحرام سے لیکر 8 ربیع الاول تک مجالس برپا ہوتیں ہیں۔

بہاولپور کے علاقہ مکھیاں والی گلی، مچھلی بازار میں ایک امام بارگاہ اسیران شام باجی شمیم زوجہ راحت خان نے قائم کی جہاں عزاداری ہوتی ہے۔ محلہ ونگڑی گراں میں سید خصلت حسین زیدی کے گھر پر عزاداری اور سید محب علی شاہ کی پوتی عالمہ سید ہ معظمہ بی بی نقوی نے جامعۃ الزہرا قائم کی۔ جہاں مجالس ہوتی ہیں۔ امام بارگاہ ایوان سرکار حجۃ العصر کربلا روڈ بہاولپور بھٹیاں والہ میں انیس بی بی بیوہ شہید عارف حسین بھٹی عزاداری ومجالس کراتی ہے۔ امام بارگاہ محمد بن ہاشم اندرون احمدپوری گیٹ میں یکم تا 13محرم الحرام زنانہ مجالس و عزاداری ہوتی ہے۔ سیٹلائٹ ٹاؤن میں سید ظفر احسن زیدی اور سید ضمیر حسن ترمذی، مہاجر کالونی میں بیگم احمد علی کی جانب سے مجالس و عزاداری ہوتی ہے۔ احمدپورشرقیہ میں بھی خواتین کی عزاداری کی محافل منعقد ہوتی ہیں جن میں سید اکبر مقبول زیدی کی ہمشیرہ سیدہ ننھی باجی امام بارگاہ بارہ امام پر جبکہ مرحوم سید محرم علی شاہ رضوی کے اہل خانہ آستانہ چراغ حیدر پر اور محلہ سرور شاہ میں مرحوم سید احسان شاہ گھڑی ساز کے گھر سید عطرت حسین رضوی جبکہ محلہ سرور شاہ میں ہی روایتی زنانہ مجلس سید ہ آل اقبال کاظمی دختر سید اقبال کاظمی منعقد کراتی ہیں۔