بہاولپور ڈویژن کی ترقیاتی ضروریات اور حکومتی ترجیحات
اداریہ — 27 اگست 2025
بہاولپور ڈویژن پاکستان کا ایک تاریخی اور زرعی لحاظ سے انتہائی اہم خطہ ہے جو اپنے وسائل، ثقافت اور جغرافیائی اہمیت کے باوجود دہائیوں سے نظرانداز چلا آ رہا ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جس نے ماضی میں نہ صرف صوبہ پنجاب بلکہ پورے ملک کی معیشت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ کپاس، گندم، چاول، آم اور کھجور کی پیداوار کے ذریعے بہاولپور کو ملک کا اناج گھر کہا جاتا ہے، مگر اس کے باسی آج بھی تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر جیسی بنیادی سہولتوں کے لیے ترستے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں حکومتوں نے ترقیاتی دعوے تو بہت کیے لیکن عملی اقدامات خال خال دکھائی دیے۔ یہاں کے نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود مقامی سطح پر روزگار کے مواقع نہ ملنے پر لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف بہاولپور کی انسانی صلاحیتوں کے ضیاع کے مترادف ہے بلکہ شہروں پر بھی غیر ضروری بوجھ ڈال رہی ہے۔
خطے کے عوام کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ قومی بجٹ میں ان کے حصے کے ترقیاتی منصوبے شامل نہیں کیے جاتے۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے قیام کے باوجود بہاولپور ڈویژن کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ بڑے ہسپتالوں کی کمی، علاج معالجے کے جدید سہولتوں کا فقدان، یونیورسٹیوں اور ریسرچ اداروں کی کمی، اور صنعتی زونز کے قیام میں مسلسل تاخیر علاقے کی محرومیوں کو مزید بڑھا رہی ہے۔
حکومت کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اگر بہاولپور کو ترقیاتی عمل سے الگ رکھا گیا تو یہ احساس محرومی مزید شدت اختیار کرے گا۔ بہاولپور کے عوام کا مطالبہ ہے کہ زرعی اصلاحات کے ساتھ ساتھ صنعتکاری کو فروغ دیا جائے، خصوصی اقتصادی زونز قائم ہوں، جدید سڑکوں اور ریلوے لائنوں کے ذریعے علاقے کو ملک کے دیگر حصوں اور گوادر بندرگاہ سے جوڑا جائے۔ اس کے علاوہ سیاحت اور تاریخی ورثے کو فروغ دے کر خطے کو معاشی طور پر مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔ قلعہ دراوڑ، نور محل، صحرا چولستان اور صوفیانہ ورثہ عالمی سیاحتی مرکز بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن ان کی طرف توجہ نہ دینے کے باعث خطہ اپنے امکانات سے محروم ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت محض وعدوں پر انحصار کرنے کے بجائے ٹھوس اور عملی اقدامات کرے۔ بہاولپور کے عوام کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ وہ قومی ترقی میں برابر کے شریک ہیں۔ اگر ڈویژن کی دیرینہ محرومیاں دور کر دی جائیں تو یہ خطہ نہ صرف اپنی تقدیر بدل سکتا ہے بلکہ پورے پاکستان کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کر سکتا ہے۔