بہاول پور کے فخر، سہیل عدنان کی شاندار کامیابیاں
دس جولائی 2025
بہاول پور سے تعلق رکھنے والے اسکواش پلیئر سہیل عدنان نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کر دیا ہے۔ حال ہی میں جنوبی کوریا میں منعقدہ ایشین جونیئر اسکواش چیمپئن شپ بوائز انڈر 13 کیٹگری کے فائنل میں سہیل عدنان نے بھارت کے آیان دھنوکا کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کیا، جو کہ ایک غیرمعمولی کامیابی ہے۔ اس سے قبل بھی سہیل عدنان نے 2025 میں پاکستان کے لیے اسکواش کی دنیا میں ایک بڑا کارنامہ انجام دیا، جب انہوں نے 18 سال بعد "برٹش جونیئر اوپن اسکواش چیمپئن شپ” کا ٹائٹل جیت کر نئی تاریخ رقم کی۔ ان مسلسل کامیابیوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بالخصوص بہاول پور کو فخر کا موقع فراہم کیا ہے۔ جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلع سے تعلق رکھنے والا یہ اسکواش پلیئر اب بین الاقوامی کھیلوں کے نقشے پر ایک چمکتا ستارہ بن چکا ہے۔
پاکستان اسکواش کی تاریخ عالمی سطح پر فتوحات سے بھری پڑی ہے۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں عظیم کھلاڑیوں جہانگیر خان اور جان شیر خان نے عالمی اسکواش کو تسخیر کیا۔ پاکستان نے ورلڈ اوپن اسکواش چیمپئن شپ میں بارہا کامیابیاں حاصل کیں، جن میں جہانگیر خان کے ناقابل شکست ریکارڈ اور مسلسل دس سالہ عالمی تسلط نے پاکستان کو اسکواش کی سپر پاور بنا دیا تھا۔
اب ایک طویل عرصے کے بعد سہیل عدنان جیسے باصلاحیت کھلاڑیوں کی کامیابیاں اس امید کو جنم دے رہی ہیں کہ پاکستان اسکواش ایک بار پھر اپنے سنہری دور کی جانب لوٹ سکتا ہے۔ خاص طور پر جنوبی پنجاب جیسے پسماندہ اور وسائل سے محروم علاقوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کی عالمی سطح پر کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر ان کو مناسب تربیت، سہولیات اور سرپرستی میسر ہو تو یہ کھلاڑی دنیا کے کسی بھی میدان میں ملک کا پرچم بلند کر سکتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومت پاکستان، پاکستان اسکواش فیڈریشن، کھیلوں کے ادارے، اور پرائیویٹ شعبہ جات سہیل عدنان جیسے کھلاڑیوں کی سرپرستی کریں اور جنوبی پنجاب جیسے علاقوں میں جدید ترین کوچنگ سینٹرز، اسکواش کورٹ اور کھیلوں کے انفراسٹرکچر کو فروغ دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کھلاڑیوں کو تعلیمی وظائف، تربیتی دورے، اور بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے بھرپور مواقع فراہم کیے جائیں۔
سہیل عدنان کی کامیابیاں نہ صرف ایک کھلاڑی کی ذاتی کاوش کا نتیجہ ہیں، بلکہ یہ اس امر کا بھی اظہار ہیں کہ پاکستان کے نوجوانوں میں غیر معمولی صلاحیتیں موجود ہیں۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی درست رہنمائی کی جائے اور انہیں آگے بڑھنے کے مواقع دیے جائیں۔ اگر سہیل عدنان جیسے کھلاڑی کو مسلسل حوصلہ افزائی اور مدد ملتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان اسکواش کے افق پر ایک بار پھر عالمی چیمپئنز کی صورت میں جگمگائے گا — اور جنوبی پنجاب جیسے علاقوں سے اٹھنے والی یہ چمک وطن عزیز کے لیے امید کی کرن بنے گی