Advertisements

مصنوعی ذہانت — بہاولپور اور جنوبی پنجاب کی پسماندگی مٹانے کا نیا راستہ

Advertisements

2025 دس اگست

اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور نے جدید تعلیم کے میدان میں ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے مصنوعی ذہانت اور ماحولیاتی تبدیلی پر مبنی پہلا بی ایس ڈگری پروگرام متعارف کرا دیا ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد کامران کی زیر صدارت انسٹی ٹیوٹ آف ایگر وانڈسٹری اور ماحولیات کے بورڈ آف مطالعہ کے اجلاس میں اس پروگرام کی منظوری دی گئی، جو قومی اور بین الاقوامی معیار کی تعلیم کا عکاس ہے۔  وائس چانسلر نے درست طور پر اس بات پر زور دیا کہ عصرِ حاضر میں تعلیم کا معیار، نصاب کی جدت اور طلبہ کی عملی مہارتیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ کہ تمام تدریسی پروگراموں کو مصنوعی ذہانت سے مربوط کیا جائے، دراصل تعلیمی دنیا کے تیز رفتار رجحانات سے ہم آہنگ ہونے کی عملی کوشش ہے۔  یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سابق ریاست بہاولپور سمیت پورے جنوبی پنجاب میں پسماندگی اور بے روزگاری عروج پر ہے۔

Advertisements

خطے کے ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان ملازمت کے مواقع نہ ہونے کے باعث مایوسی اور غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں۔ اس صورتحال میں مصنوعی ذہانت اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے جدید شعبوں میں تربیت نہ صرف اس خطے کے نوجوانوں کے لیے پاکستان کے اندر روزگار کے مواقع پیدا کرے گی بلکہ انہیں بیرونِ ملک بھی باوقار ملازمتیں حاصل کرنے کے قابل بنائے گی۔  یہ اطمینان بخش امر ہے کہ نصاب کی جدیدیت کے ساتھ ساتھ جانچ کے معیارات اور تدریسی معیار کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ اس سے نہ صرف طلبہ کی فکری و تحقیقی صلاحیتیں نکھریں گی بلکہ وہ عالمی روزگار کی منڈی میں پُراعتماد انداز میں اپنی جگہ بنا سکیں گے۔  انسٹی ٹیوٹ کے ناظم پروفیسر ڈاکٹر غلام حسن عباسی اور فیکلٹی برائے زراعت و ماحولیات کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر تنویر حسین ترابی کی کاوشیں بھی لائقِ تحسین ہیں، جنہوں نے مقامی اور عالمی ماحولیاتی چیلنجوں کے تناظر میں یہ منفرد بی ایس پروگرام ترتیب دیا۔ مصنوعی ذہانت اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے شعبوں میں مہارت رکھنے والے فارغ التحصیل نوجوان نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مواقع حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔  اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کا یہ اقدام اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ جب وژن، محنت اور جدید تقاضوں کی سمجھ بوجھ یکجا ہو تو تعلیمی ادارے پسماندہ علاقوں میں ترقی اور خوشحالی کے حقیقی مراکز بن سکتے ہیں