لاہور: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) محسن بٹ نے کہا ہے کہ کینیائی پولیس نے جنرل سروس یونٹ کے 4 میں سے ایک آفیسر کو پاکستانی تحقیقات کاروں کے سامنے پیش کرنے سے انکار کر دیا جو ارشد شریف پر گولیاں چلانے والوں میں شامل تھے ۔
ان خیالات کا اظہار ڈی جی ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے امریکی میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق کینیائی پولیس نے دعویٰ کیا کہ اس افسر کا ہاتھ اس وقت زخمی ہوا تھا جب 23 اکتوبر کی رات پولیس کی طرف سے ارشد شریف کی گاڑی اور گاڑی سے پولیس کے یونٹ پر فائرنگ ہوئی تھی۔
امریکی میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ کینیا کی پولیس کے 3 شوٹرز سے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے پوچھ گچھ کی تھی اور ان کے بیانات میں نہ صرف گھمبیر نوعیت کا تضاد تھا بلکہ ان کے بیانات غیر منطقی تھے۔ تینوں شوٹرز نے اسی موقف کو دہرایا جو اس سے قبل کینیا کی پولیس میڈیا میں بیان کر چکی ہے کہ انہوں نے ایک گاڑی کو ناکے پر روکا مگر گاڑی کے نہ رکنے پر اس پر فائرنگ کر دی اور جواب میں ان پر بھی گاڑی سے فائرنگ کی گئی۔
جی ایس یو کے شوٹرز نے پاکستانی تحقیقات کاروں کو بتایا کہ ان کی اپنی گاڑی سڑک پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں سے کچھ میٹر کے فاصلے پر کھڑی تھی اور گاڑی کی سامنے والی بڑی لائٹ بھی آن تھی۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے محسن بٹ نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کینیا کی پولیس ارشد شریف کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے۔ شوٹر تک رسائی نہیں دے رہی جس کا ہاتھ دو ہفتے قبل زخمی ہو گیا تھا۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کیونکہ اس افسر کا بیان بہت اہم ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگلا قدم ارشد شریف کی ہلاکت کے مقدمے کا ایکسٹرا ڈیشن ایکٹ کے سیکشن چار کے تحت پاکستان کے اندر ایف آئی اے میں اندراج ہے لیکن یہ اندراج اس وقت ہو گا جب وفاقی حکومت اس کے احکامات جاری کرے گی۔ کینیا کی پولیس بین الاقوامی قوانین کے تحت صحافی کے اس طرح کے سفاکانہ قتل جیسے جرم کی تحقیقات میں تعاون کی پابند ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مشترکہ ٹیم کی تحقیقات ابھی غیر حتمی ہیں اور ٹیم بہت جلد متحدہ عرب امارات جائے گی۔
کینیائی پولیس کے ترجمان برونو شئوسو نے سوالات کے جواب میں کہا تھا کہ چونکہ خود پولیس پر تحقیقات ہو رہی ہیں، اس لیے وہ اس موضوع پر کوئی بیان نہیں دے سکتے۔
کینیا میں پولیس کے نگران ادارے کی کمشنر نے بتایا کہ ارشد شریف کی گاڑی کو ناکے پر روکنے کے اسباب پر شکوک پائے جاتے ہیں