اخبار پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

میڈیا کا پورا منظر نامہ تبدیل ہو چکا پیمرا قانون میں ترمیم وقت کی ضرورت ہے :وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب

marriam aurangzeb in national assembly speech

پیمرا قانون کی خلاف ورزی پر کسی چینل کو معطل کرنے کا اختیار چیئرمین پیمرا کی بجائے کونسل آف کمپلینٹ کو دے دیا گیا

اسلام آباد۔20جولائی  (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءقومی اسمبلی میں پیش ہونے پر وزیراعظم، وفاقی کابینہ، پارلیمان اور میڈیا کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا کا پورا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے، اس میں نئے میڈیمز آ چکے ہیں، ڈس انفارمیشن اور فیک نیوز پوری دنیا کا مسئلہ ہے، پیمرا قانون میں ترمیم وقت کی ضرورت ہے۔ فیک نیوز، ڈس انفارمیشن اور مس انفارمیشن کی تشریح بل میں شامل کی گئی ہے، پیمرا اتھارٹی کے اندر پہلی مرتبہ پی بی اے اور پی ایف یو جے کو نمائندگی دی جا رہی ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پیمرا آرڈیننس 2002ءکے بعد آج پہلی مرتبہ پیمرا آرڈیننس میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جس پر وزیراعظم، وفاقی کابینہ، پارلیمان اور میڈیا کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کا پورا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے، اس کے اندر نئے میڈیمز آ گئے ہیں اور طویل عرصے سے پیمرا قانون میں ترمیم کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن کو پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے قانون میں شامل کیا جا رہا ہے، اس کی زد میں پاکستان کے شہری بھی آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا قانون کی تیاری میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی مشاورت شامل تھی جس میں پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (پی بی اے)، پی ایف یو جے، سی پی این ای کی نمائندگی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل پر ایک سال تک مشاورت کا سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءکی تیاری میں وزارت قانون اور وزارت پارلیمانی امور نے اہم کردار ادا کیا۔ پیمرا (ترمیمی) بل 2023ءکے حوالے سے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پیمرا قانون کے 9 سیکشنز میں ترامیم جبکہ اس میں پانچ نئے سیکشنز شامل کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلی مرتبہ پیمرا قانون میں تحمل و برداشت، معاشی و توانائی کی ترقی، بچوں سے متعلقہ مواد کو شامل کیا گیا ہے جبکہ عوام کی تفریح، تعلیم اور معلومات کے دائرہ کو وسیع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نیوز پیپرز ملازمین کے لئے آئی ٹی این ای موجود تھا لیکن الیکٹرانک میڈیا کے ملازمین اور ورکنگ جرنلسٹس کو یہ قانون کور نہیں کرتا تھا۔ پیمرا قانون میں اس ترمیم سے الیکٹرانک میڈیا کے جن ملازمین کو واجبات اور تنخواہیں نہیں ملیں گی تو ان اداروں کو حکومتی اشتہارات فراہم نہیں کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا اتھارٹی کے اندر پہلی مرتبہ پی بی اے اور پی ایف یو جے کو نمائندگی دی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ پیمرا میں کونسل آف کمپلینٹ بھی قائم کی جا رہی جہاں ملازمین اپنی تنخواہوں سے متعلق شکایات بھی درج کروا سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کونسل آف کمپلینٹ میں پی ایف یو جے، پی بی اے اور میڈیا کے نمائندوں کو جگہ دی گئی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پچھلے چار سال ملک پر ایسا وزیراعظم مسلط تھا جس کو عالمی صحافتی تنظیموں نے میڈیا پریڈیٹر کا خطاب دیا۔ پچھلے چار سال کا دورہ صحافیوں کے لئے کڑا دور تھا، صحافیوں کے پیٹ میں گولیاں ماری گئیں، انہیں اغواءکیا گیا، ان کی پسلیاں توڑی گئیں، ان کے چلتے پروگرام بند کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا ترمیمی بل 2023ءمیں کسی پروگرام کو بند کرنے، پیمرا قانون کی خلاف ورزی پر کسی چینل کو معطل کرنے کا اختیار چیئرمین پیمرا کی بجائے کونسل آف کمپلینٹ کو دے دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے تین رکنی کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ خلاف ورزی کے مرتکب چینل کو معطل کرنا ہے یا اس پر پابندی لگانی ہے، اس کے بعد اس کا فیصلہ کونسل آف کمپلینٹ کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک تاریخی ترمیم ہے، اس ترمیم سے یہ اختیار چیئرمین پیمرا کے پاس موجود نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا کے اندر اہم پوزیشنوں پر دو خواتین کی شمولیت کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا کے فیصلوں کے خلاف متعلقہ صوبے کی ہائی کورٹ میں اپیل کی جا سکے گی۔ اس کا مقصد پیمرا قانون کے موثر نفاذ کو یقینی بنانا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سابق دور میں پی ایم ڈی اے کی شکل میں کالا قانون بنایا جا رہا تھا جس کے خلاف ہم نے پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دیا، اس قانون کو منظور نہیں ہونے دیا۔ انہوں نے کہا کہ فیک نیوز کی ڈیفی نیشن کو پہلی مرتبہ پیمرا قانون کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈس انفارمیشن کی تشریح بھی ترمیم کے ذریعے بل میں شامل کی گئی ہے۔ ”ڈس انفارمیشن“ سے مراد وہ خبر ہے جو قابل تصدیق نہ ہو، گمراہ کن، من گھڑت، ساز باز سے تیار کردہ یا جعلی ہو۔ ایسی خبر ”ڈس انفارمیشن“ کہلائے گی جو کسی ذاتی، سیاسی یا مالی مفاد کی خاطر یا کسی کو ہراساں کرنے کے لئے دی گئی ہو۔ متعلقہ شخص کا موقف لئے بغیر دی گئی خبر ”ڈس انفارمیشن“ کی تعریف میں شامل ہوگی۔ متاثرہ شخص کا موقف بھی اسی نمایاں انداز میں نشر ہوگا یا کوریج دی جائے گی جس طور اس کے خلاف ”ڈس انفارمیشن“ کو دی گئی ہوگی۔ مس انفارمیشن سے مراد وہ مواد ہے جو جانچ کے بعد جھوٹ ثابت ہو یا غلطی سے نشر ہو گیا ہو۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چار سال کے دوران لوگوں کی پگڑیاں اچھال کر ان کی تضحیک کی جاتی رہی، میں میڈیا کی مشکور ہوں کہ انہوں نے اس بل کی تیاری میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔

مزید پڑھیں