تحریر: ریاض الحق بھٹی
جس ملک کے 22کروڑ نادان عوام کو خبر ہی نہ ہو کہ اس کا ہر ایک فرد 7لاکھ روپے کا مقروض ہے، جہاں مدت سے پانی، بجلی، گیس اور آٹے کی آنکھ مچولی کھیلی جا رہی ہے، جہاں آئے دن بے خبر عوام پر بجلی، گیس اور پٹرول کے بم گرائے جا رہے ہیں اور عوام کو مہنگائی کے ڈرون حملوں سے بن موت مارا جا رہا ہے، جہاں احتجاج کی سکت ہی تو کیا سوچ ہی پیدا نہیں ہوئی، وہاں سوائے رب کی رحمت اور مدد کے ہمارا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
ہم میں سے اکثر بے خبر لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ واپڈا کے 48ہزار افسران اور ایک لاکھ پانچ ہزار ملازمین سالانہ 39کروڑ 10لاکھ بجلی کے فری یونٹس استعمال کر کے عوام پر7ارب 50کروڑ روپے کی مہنگائی کی بجلی گرا گرا کر مار رہے ہیں اور اس سارے کھیل میں بار بار قربانی صرف عوام کو ہی دینا پڑتی ہے۔
اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ”کیا پاکستان ایک غریب ملک ہے؟“۔ اس سوال کا جواب چندبرس قبل ایک سوئس بینک کے ڈائریکٹر نے دیا تھا کہ پاکستان کی 97ارب ڈالرز کی رقم سوئس بینکوں میں پڑی ہے جو کہ اگلے 30سال تک کے ٹیکس فری بجٹ کے لئے کافی ہے،بلکہ اس رقم میں سے 6کروڑ پاکستانیوں کو نہ صرف باوقار ملازمتیں دی جا سکتی ہیں بلکہ ملک کے طول و عرض میں 4رویہ سڑکیں بھی بنائی جا سکتی ہیں۔صرف یہی نہیں بلکہ اس رقم سے 500سے زیادہ چھوٹے بڑے پاور پراجیکٹس لگا کراس ملک کے عوام کو ہمیشہ کے لئے فری بجلی بھی دی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ اگر ہر پاکستانی اگلے 60سال تک 20ہزار روپے ماہانہ بھی لے تب بھی ورلڈ بینک یا آئی ایم ایف سے ہمیں کوئی قرض نہیں لینا پڑے گا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی، غور سے سنیے کہ اگر کالا باغ ڈیم بن جائے تو تقریباً 4ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی جس کی ابتدائی لاگت 4روپے فی یونٹ ہو گی اور چند ہی سالوں بعد یہ قیمت کم ہو کر محض 2روپے فی یونٹ رہ جائے گی۔ اس کے علاوہ ملک کے چاروں صوبوں میں ایک کروڑ پچیس لاکھ ایکڑ بنجر زمین بھی سیراب ہونا شروع ہو جائے گی جس سے صوبہ خیبر پختونخوا کے 30لاکھ ایکڑ، صوبہ سندھ کے 36لاکھ ایکڑ، صوبہ بلوچستان کے 16لاکھ ایکڑ اورصوبہ پنجاب کے 43لاکھ ایکڑ سیراب ہوں گے۔زرعی خوشحالی کے علاوہ ہر سال آنے والے سیلابوں سے ہونے والا مالی اور جانی نقصان بھی تقریباً ختم ہو جائے گا۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ کالا باغ کے آبی ذخیرے کے لئے قدرت نے ہمیں بہترین محل وقوع عطا کیا ہے اور اس کے خدوخال پر انتہائی کم لاگت آئے گی۔ یہ منصوبہ پاکستان اور عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے سنگ میل ثابت ہو گا۔
باتیں تو کرنے کو بہت ہیں اور عوام کی اکثریت کا پسندیدہ موضوع بھی ہمیشہ سے سیاست ہی رہا ہے لیکن ہمارے لئے یہ موضوع تقریباً شجر ممنوعہ ہے کیونکہ ہماری کسی سیاسی جماعت سے نہ تو ہمدردی ہے اور نہ ہی وابستگی، لیکن حقائق کے پیش نظر ذہن تقاضا کرتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی افق پر چمکنے والے خوبصورت کرداروں کا ذکر کریں تاکہ نئی نسل کے ساتھ ساتھ موجودہ اکابرین کو بھی اپنے سیاسی خدوخال پھر سے سجانے اور بنانے میں مدد مل سکے۔ماضی میں محترم سید منور حسن مرحوم کو ایم این اے ہونے کی وجہ سے حکم ہوا کہ وہ اپنے مالی اثاثے ظاہر کریں۔یہ چونکہ قانونی حکم تھا جس کی تعمیل میں مرحوم منور حسن نے اپنے اور اپنی اہلیہ محترمہ وہ بھی ایم این اے تھیں کے درج ذیل اثاثے واضع کر دیئے:
مرحوم نے لکھا کہ میرے پاس میری بیوی کے نام ایک 3 مرلے کا مکان ہے جو میری بیوی کو وراثت میں ملا ہے،حلال کی کمائی سے گھر تو دور کی بات ہے گاڑی بھی نہیں خرید سکتا۔جب جماعت کی طرف سے کوئی ذمہ داری ادا کرنی ہو تو جماعت کی گاڑی ہی استعمال کرتا ہوں ورنہ ساری زندگی میں نے پبلک ٹرانسپورٹ پر ہی سفر کیا ہے۔ہاں اس کے علاوہ مجھ پر 70ہزار روپے کا قرض ہے جس کے لئے پریشانی رہتی ہے۔یہ اس شخص کا حال ہے جو 1977ء کے الیکشن میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کر کے نہ صرف خود ممبر قومی اسمبلی بنا بلکہ پانچ سال تک ان کی زوجہ محترمہ بھی ممبر قومی اسمبلی رہیں۔سید منور حسن 20 سال تک جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل اور 5 سال تک امیر جماعت اسلامی پاکستان بھی رہے مگر ان کے پاس اپنی بیوی کا وراثت میں ملنے والا 100 گز کا مکان صرف 100گز ہی رہاایک ہزار گز کا کبھی نہیں ہو سکا،اور اتنے بڑے ایم این اے کا جنازہ بھی اسی 3 مرلہ کے گھر سے اٹھا۔سید منور حسن نے اپنے بیٹے کی شادی کی تو اس وقت وہ امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے مگر اپنے بیٹے کے ولیمہ میں مہمانوں کی تواضع سموسوں، پکوڑوں اور چائے سے کی اور کہنے لگے کہ بس اتنی ہی استطاعت رکھتا ہوں۔حالانکہ ولیمہ کی اس تقریب میں وزیر اعظم پاکستان، صوبائی و وفاقی وزرا، وزیر اعلیٰ، گورنر اور بیوروکریٹس بھی شریک ہوئے۔منور حسن کو ان کی بیٹی کی شادی میں بے شمار قیمتی تحائف اورسونے کے زیورات وغیرہ ملے تو انہوں نے سب کچھ اٹھا کریہ کہتے ہوئے جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کروا دیا کہ یہ تحائف مجھے یا میری بیٹی کو ذاتی حیثیت میں نہیں بلکہ امیر جماعت اسلامی پاکستان ہونے کی وجہ سے ملے ہیں اس لئے ان پر حق بھی جماعت اسلامی پاکستان کا ہی بنتا ہے۔
جو لوگ آخرت کی جوابدہی پر ایمانِ کامل رکھتے ہیں وہ کبھی بھی دنیاوی لذاتِ نفس کے پیچھے نہیں پڑتے،منور حسن صاحب جس زہد و تقویٰ کی معراج پر تھے آج ہر شخص ان کی مثال دیتا ہے، اس شخص کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا،جب بھی نماز سے اٹھتے چہرہ آنسو ؤں سے ترہوتا،کبھی نمازِتہجد کو سفر میں بھی نہ چھوڑا، کپڑوں کے تین چار سفید سوٹ اور ویسٹ کوٹ،جن کی حالت یہ تھی کہ دھلوا دھلوا کر رنگت تک اتر چکی تھی،کیا موجودہ ملکی حالات میں یہ باتیں صرف پڑھنے اور سنانے کی حد تک ہی رہ گئی ہیں؟، آج کی سیاست میں امانت و دیانت کا یہ رنگ کیوں نا پید ہوچکا ہے؟، یا پھر جس طرح کے ہم خود ہیں اسی طرح کے حکمران ہم پرمسلط کر دیے جاتے ہیں۔
آخر میں پھر وہی بات کہ ہم سب نے یعنی عوام، عدلیہ،عسکری و سیاسی قائدین،انتظامیہ و تاجرین اور علمائے کرام و اساتذہ عظام نے مل کرپاکستان کو نہ صرف اندرونی و بیرونی سازشوں سے بچانا ہے بلکہ ان کے مستقل خاتمے اور پاکستان کی پائیدار تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، ہم سب نے…..