Advertisements

زراعت بحران کا شکار: مہنگی کھاد، سستی فصلیں، کسان بدحال 

Advertisements

اداریہ (7 اگست 2025)


ملک کی زراعت اس وقت شدید بحران سے دوچار ہے۔ ایک طرف زرعی پیداوار کے بنیادی لوازمات — جیسا کہ کھاد، بیج، زرعی ادویات اور مزدوری — کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، تو دوسری جانب فصلوں کے نرخ اتنے کم ہو چکے ہیں کہ کسان اپنی لاگت بھی پوری نہیں کر پا رہے۔

Advertisements

فوجی فرٹیلائزر اور فاطمہ فرٹیلائزر جیسی بڑی کمپنیوں نے حالیہ دنوں میں ڈی اے پی کھاد کی قیمت 13,500 روپے اور نائٹروفاس 8,500 روپے فی بوری تک بڑھا دی ہے۔ پچھلے دو ہفتوں میں ڈی اے پی پر 500 اور نائٹروفاس پر 300 روپے کا اضافہ کیا گیا۔ کھاد کی قیمت میں مسلسل اضافے سے چھوٹے کسان بدحال ہو چکے ہیں، جن کے لیے اب کھاد خریدنا بھی ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔

کپاس (کاٹن) کی فصل بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ کپاس کے موجودہ نرخ اتنے کم ہیں کہ اس کی کاشت پر آنے والے اخراجات بھی پوری نہیں ہو رہے۔ بیج، کھاد، سپرے، مزدوری، پانی اور دیگر اخراجات کے بعد کسان کو نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ صورتحال صرف کسانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری ملکی معیشت کے لیے خطرناک ہے، کیونکہ کپاس ہماری برآمدات کا ایک بڑا ذریعہ ہے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کا انحصار اسی فصل پر ہے۔

ہم حکومتِ پاکستان، بالخصوص وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق اور وزارتِ صنعت و پیداوار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر ایک جامع زرعی پالیسی مرتب کرے۔ کھاد اور زرعی ادویات پر سبسڈی دی جائے، فصلوں کے لیے امدادی نرخ کا اعلان کیا جائے اور ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ بصورت دیگر، کاشتکاری نہ صرف غیر منافع بخش بلکہ نقصان دہ پیشہ بن جائے گا، اور دیہی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی۔

زرعی معیشت کی بحالی ملک کی اقتصادی خودمختاری کی ضمانت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ کسان کی آواز سنی جائے، اس کے مسائل حل کیے جائیں، اور زرعی شعبے کو بحران سے نکالا جائے