کچھ بے ربط سی یادیں مظہر رشید کے نام
مظہر رشید مسن پریس کلب مبارک پور کے صدر اور روزنامہ جنگ کے نمائندے تھے جن سے میری رفاقت تین سے زائد عشروں پر محیط رہی۔ عزیزم مظہر رشید مسن میرے تابعدار شاگرد بھی تھے جو 2019 میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے دوران خانہ کعبہ مکۃ المعظمہ میں طواف کرتے ہوئے دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئے تھے ۔ مظہر رشید مسن مرحوم کی بیوہ اور ہماری بھاوج محترمہ شازیہ مظہر نے اپنے شوہر کی چوتھی برسی کے موقع پر اپنی یادوں کے حوالے سے روزنامہ نوائے احمد پور شرقیہ کیلئے اپنے تاثرات قلمبند کئے ہیں جنہیں ہم من و عن شائع کر رہے ہیں (ایڈیٹر)
آج ایک اور برس بیت گیا اس کے بغیر جس کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے. سب کہتے ہیں وقت کتنا تیزی سے گزر گیا مگر وقت گزرا ہی کہاں ہے ؟وہ تو ٹھہر گیا ہے جامد ہو گیا ہے جیسے میرے لفظ میرا قلم -جو پچھلے چار سال سے اتنا بھاری ہوگیا ہے اس کو اٹھانے کی سکت ہی باقی نہیں رہی میں جو لفظوں سے کھیلتی تھی ان کی تعریف میں ہر لفظ پھیکا اور ادھورا لگنے لگا- اپنے وجود کی کرچیوں کو سمیٹ کر اور سسکیوں کو دبا کر کچھ بے ربط سطور لکھنے کی کوشش کی ہے اس عام سا نظر آنے والے انسان کے بارے میں جو اپنے آپ میں خاص تھا ۔ ہر رشتے کو بھر پور نبھانے والا ماں کا فرماں بردار جھوٹے بہن بھائیوں کا باپ ، بیوی کا بہترین ہمسفر ، بچوں کا دوست یاروں کا ہرد لعزیز ، نڈر اور بے باک صحافی ، طلبہ کا شفیق استاد گویا ہر روپ میں مکمل انسان۔ان کی زندگی کا سفر اگرچہ آسان نہ تھا ، یتیمی سے شروع ہونے ۔ والی جوانی وقت سے پہلے بردباری کا لبادہ اوڑھ لیا گویا ٹھان لی زندگی میں کچھ کرنا ہے ۔ اللہ اور وقت نے ساتھ دیا اور زینہ بہ زینہ منزل قریب آتی گئی ۔ ہر کام کی جلدی کچھ رہ نہ جائے کچھ چھوٹ نہ جائے شائد اپنے رب سے ملنے کی جلدی میں ہر کام وقت سے پہلے کرتے چلے گئے کبھی ماتھے پر شکن نہیں کبھی شکوہ نہیں میں سوچتی کس مٹی سے بنے ہیں کیا معلوم وہ تو اس مقدس مٹی سے بنے تھے جو ان کا ابدی ٹھکانا بنی یتیمی کا جو سفر ان سے شروع ہوا ان کے بچوں پر ختم ہوا ۔ ناصر کاظمی نے کہا تھا ۔
دائم آباد رہے یہ دنیا
ہم نا ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
دنیا تو اب بھی آباد ہے ۔ لوگ بھی وہی ہیں مگر ان سا کون یے کوئی گواہی دے دے کہ کوئی ان جیسا ہے تو مانوں۔
چار برس گزرنے کے بعد بھی ہر آہٹ پہ گمان ہوتا ہے گویا سامنے آ کھٹرے ہوں گے اور کہیں گے کسی پریس میٹنگ میں جانا ہے ، دوستوں کے ساتھ کھانے کا پروگرام ہے اور میں کہوں گی جلدی آیئے گا ورنہ کال کردیجیۓ گا فکر رہتی ہے ۔
کہتےہیں اللہ کی رضا میں راضی رہنا سیکھو ۔ بے شک اللہ کی امانت تھی اور ہم سے زیادہ اللہ کے پیارے تھے تبھی اپنے گھر میں ہی روک لیا اور ہمارے حصے میں انتظار ہی رہالا متناہی انتظار ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعدیہ معلوم کہ تو نہیں تھا تیرے ساتھ ایک دنیا تھی۔
تحریر: شازیہ مظہر