Advertisements

فلسطین کے حق میں تاریخی پیش رفت

Advertisements

اداریہ 14 ستمبر 2025

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مسئلہ فلسطین پر دو ریاستی حل کی قرارداد بھاری اکثریت سے منظور کر کے دنیا کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ فلسطینی عوام کی طویل اور صبر آزما جدوجہد اب عالمی برادری کے ایجنڈے پر محض ایک مسئلہ نہیں بلکہ ایک ناگزیر حقیقت بن چکی ہے۔ 142 ممالک کا حق میں ووٹ دینا، صرف دس ممالک کا مخالفت کرنا اور امریکا و اسرائیل کا بائیکاٹ دراصل عالمی رائے عامہ اور طاقت کے مراکز کے درمیان گہری خلیج کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ اس امر کی دلیل بھی ہے کہ فلسطینی عوام کے جائز اور بنیادی انسانی حقوق کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

Advertisements

یہ قرارداد محض ایک علامتی عمل نہیں بلکہ جولائی میں سعودی عرب اور فرانس کی میزبانی میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کے نتیجے میں تیار ہونے والے "نیویارک اعلامیہ” کا تسلسل ہے۔ سات صفحات پر مشتمل اس اعلامیہ نے فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب ایک عملی لائحہ عمل مرتب کیا ہے جس میں سفارتی، سیاسی اور قانونی حکمت عملیوں کو واضح کیا گیا ہے۔ عرب دنیا اور یورپی طاقتوں کا اس عمل میں متحرک کردار ظاہر کرتا ہے کہ اب مسئلہ فلسطین صرف مشرق وسطیٰ تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔

اس موقع پر فرانس کے صدر کا یہ اعلان کہ وہ ستمبر ہی میں فلسطین کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں گے، عالمی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اگر یورپی یونین کے دیگر بڑے ممالک بھی اسی روش پر چلتے ہیں تو نہ صرف فلسطینی عوام کے حوصلے بلند ہوں گے بلکہ اسرائیل پر سفارتی دباؤ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ ماضی میں یورپ عموماً امریکا کی پالیسیوں کا حلیف رہا ہے، لیکن فرانس کا یہ فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ اب مغربی دنیا میں بھی مسئلہ فلسطین کے حوالے سے نئی سوچ جنم لے رہی ہے۔

فلسطین کی وزارتِ خارجہ نے قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ یہ پیش رفت نوآبادیاتی قبضے کے خاتمے اور فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کے حصول میں سنگ میل ثابت ہوگی۔ سعودی عرب اور فرانس کو سراہنا اس لیے بھی اہم ہے کہ انہوں نے نہ صرف کانفرنس کی میزبانی کی بلکہ نیویارک اعلامیے کو عملی منصوبے میں بدلنے کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ فلسطینی قیادت اب پہلے سے زیادہ سفارتی میدان میں متحرک اور کامیاب دکھائی دے رہی ہے۔

اس کے برعکس اسرائیل نے قرارداد کو مسترد کر کے اپنی پرانی ہٹ دھرمی کو دہرایا ہے۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیلی حکومت اب بھی طاقت اور جبر کے ذریعے فلسطینی عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔ امریکا کا ووٹنگ میں شریک نہ ہونا اس امر کا عکاس ہے کہ واشنگٹن آج بھی اسرائیل کو عالمی دباؤ سے بچانے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ لیکن اس کے باوجود عالمی سطح پر اب وہ تنہا ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ اکثریت رائے انصاف اور امن کے ساتھ کھڑی ہے۔

اب اصل سوال یہ ہے کہ کیا قرارداد کی منظوری کے بعد عالمی برادری عملی اقدامات بھی کرے گی یا یہ فیصلہ صرف کاغذی کارروائی تک محدود رہ جائے گا؟ تاریخ گواہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں اکثر سیاسی مصلحتوں اور طاقت کے کھیل کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قرارداد پر فوری اور ٹھوس عمل درآمد کے لیے ایک واضح ٹائم لائن اور میکنزم طے کیا جائے۔ اسرائیلی جارحیت اور قبضے کو روکنے کے لیے عالمی دباؤ، اقتصادی پابندیوں اور سفارتی تنہائی جیسے اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔

فلسطینی عوام نے نصف صدی سے زائد عرصہ قربانیاں دے کر ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے حق خودارادیت سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے طاقتور ممالک بھی انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ فلسطین کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرنا صرف مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر عالمی برادری اس موقع کو ضائع کرتی ہے تو یہ نہ صرف فلسطین بلکہ دنیا بھر کے مظلوم عوام کے لیے ایک اور مایوسی کا سبب بنے گا۔

یہ لمحہ فلسطینی عوام کی دیرینہ جدوجہد کا ایک سنگ میل ہے۔ اب عالمی طاقتوں پر لازم ہے کہ وہ قرارداد کی روح کے مطابق ایک آزاد اور پرامن فلسطین کے قیام کو یقینی بنائیں، تاکہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن قائم ہو سکے اور دنیا کو ایک نیا پیغام ملے کہ انصاف، مساوات اور انسانی حقوق محض نعروں تک محدود نہیں بلکہ عملی حقیقت بن سکتے ہیں