Advertisements

اے ڈی خواجہ سابق انسپکٹر جنرل پولیس سندھ—— محکمہ پولیس کی نیک نام شخصیت

A.D.Khwaja Former Inspector General Police Sindh
Advertisements

جناب اے ڈی خواجہ کا شمار پولیس سروس آ ف پاکستان کے انتہائی ایماندار فرض شناس اور بہادر افسران میں ہوتا ہے – آپ نے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ  پولیس کے عہدے سے محکمہ پولیس میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا- سندھ میں انسپکٹر جنرل پولیس کے عہدے پر تعینات ہوئے اور حال ہی میں وہ اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعدریٹائر ہوئے ہیں- جناب اے ڈی خواجہ  ماضی میں احمد پور شرقیہ میں اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ پولیس کے طور پر خدمات سرانجام دے چکے ہیں آ پنے احمد پور شرقیہ میں  تعیناتی کے دوران منشیات فروشوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور اپنے فرائض منصبی انتہائی غیر جانبدارانہ طریقے سے انجام دیے- اوچ شریف کی  معروف سماجی و سیاسی شخصیت شیخ ناصر سلیم ایڈوکیٹ نے ہمیں جناب نیاز احمد کھوسہ کی جناب اے ڈی خواجہ کے حوالے سے لکھی ہوئی تحریر بھجوائی ہے جسے ہم من وعن شائع کر رہے ہیں

(ادارہ)

Advertisements

  سندھ پولیس کی تاریخ کا ایک درخشاں باب بند ہوا، سابقہ آئی جی سندھ جناب اے ڈی خواجہ صاحب ریٹائر ہو گئے، جناب اے ڈی خواجہ صاحب کی خدمات، دیانت داری، اور عوامی محبت کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔ ان کا سفر ایک اے ایس پی سے لے کر آئی جی سندھ تک، مظلوموں کی آہوں، محروموں کی دعاؤں، اور انصاف کے متلاشیوں کی امیدوں سے عبارت رہا۔    اے ڈی خواجہ کی شخصیت میں سادگی اور عاجزی کا ایسا امتزاج تھا کہ ان سے ملنے والا ہر شخص حیران رہ جاتا۔ وہ بیوروکریسی کی بھاری کرسی پر بیٹھے بھی اپنے لیے کوئی "خصوصی مراعات” نہیں رکھتے تھے۔ سادہ سفید شلوار قمیض، عام سی گاڑی، اور ہر ملازم سے یکساں محبت—یہ تھی ان کی پہچان۔

ایک مرتبہ کسی تقریب میں ایک کانسٹیبل نے انہیں پانی کا گلاس پیش کیا تو انہوں نے جھک کر اس کا ہاتھ تھاما اور کہا: "بیٹا، یہ خدمت میرا فرض تھا۔ تمہارا شکریہ۔” یہ تھی وہ عاجزی جو انہیں عظیم بناتی تھی۔    ان کا کیریئر ہمیشہ میرٹ کی بالادستی کی علامت رہا۔ ترقی کے مواقع ہوں یا کسی مقدمے کی تفتیش، ان کا فیصلہ ہمیشہ حق اور اصولوں پر مبنی ہوتا۔ ایک بار ایک بااثر شخصیت کے بیٹے کو ایک قتل  کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو ان پر دباؤ کے باوجود انہوں نے وزیراعلیٰ کو جواب دیا کہ : "قانون سب کے لیے یکساں ہے۔”  جن لوگوں نے ان کے ساتھ کام کیا، وہ جانتے ہیں کہ اے ڈی خواجہ محض ایک آفیسر نہیں، بلکہ ایک استاد، رہنما، اور ہمدرد انسان تھے۔ ایک سینئر افسر نے مجھ سے کہا: "وہ ہمیں سکھاتے تھے کہ یونیفارم کی عزت ہماری اپنی عزت ہے۔” ایک کانسٹیبل کی بیٹی کی شادی میں شرکت کرنا ہو یا کسی جوان افسر کی رہنمائی، وہ ہمیشہ سب کے لیے دستیاب رہتے۔  

 اے ڈی خواجہ کی زندگی کا ایک پہلو جو کم ہی دیکھا گیا، وہ تھی ان کی انتھک محنت : ایک مرتبہ کراچی میں ایک ہائی پروفائل کیس ( جسٹس مقبول باقر پر خودکش حملہ کیس ) میں مجھے اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملا- کیس کی پہلی تفتیش پر جسٹس مقبول باقر نے عدم اعتماد کردیا تھا اسی وجہ آئی جی سندھ نے جسٹس مقبول باقر کیس کی دوبارہ تفتیش کیلئے تین افسران کا انتخاب کیا تھا مگر سندھ ہائیکورٹ نے صرف اے ڈی خواجہ صاحب اور میرے نام پر اتفاق کیا- اُس کیس کی تفتیش میں مجھے کوئی بھی کام نہیں کرنا پڑا، جناب اے ڈی خواجہ صاحب نے کمال ہوشیاری اور محنت سے کیس کے گمشدہ لنکس کو یکجا کیا اور اصل ملزمان کی نشاندہی اور گرفتاری کو یقینی بنایا  ایک واقعہ مشہور ہے کہ ٹھٹھہ کے ایک دور دراز گاؤں میں ایک بوڑھی ماں کا بیٹا چور قرار دے کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ خواجہ صاحب نے شکایت پر خود اس کیس کی تفتیش کی اور ثبوتوں کی کمزوری کو بے نقاب کیا۔ رہائی کے بعد لڑکا شکریہ کیلئے ان کے پاس آیا تو اے ڈی خواجہ صاحب نے بچے کو گلے لگالیا اور اُس دن بچے کو دو پھر کا کھانہ اپنے ساتھ کھلایا اور اپنے ڈرائیور اور اسکاڈ کو کہا کہ بچے میری گاڑی کی اگلی سیٹ پر بٹھا کر اُس کے گھر چھوڑ آئیں 

 ایک سال پہلے کراچی سے واپسی پر میں نوری آباد میں اے ڈی خواجہ صاحب کے پیٹرول پمپ پر نماز پڑھنے کیلئے رُکا تو مسجد خالی پڑی تھی مگر مسجد کا ایئرکنڈیشنر چل رہا تھا- میں نے جاتے وقت پیٹرول پمپ کے منیجر کو بلواکر کہا کہ بھائی بجلی مہنگی ہے مسجد کا ایئرکنڈیشنر بند کروادیں – منیجر نے کہا سر : مالکوں کا حُکم ہے کہ مسجد کا ایئرکنڈیشنر بند نہیں ہونا چاہیئے –  میں نے یہ بات اے ڈی خواجہ صاحب کو واٹس آپ پر میسج کردی اور داد دی کہ وہ لوگوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں کچھ دیر بعد میسج پڑھ کر اے ڈی خواجہ کا مجھے فون آیا ( وہ مجھے ہمیشہ نیاز صاحب کہ کر بات شروع کرتے ہیں ) اے ڈی صاحب نے بات شروع کرتے ہوئے کہا کہ میں نے یہ پیٹرول پمپ حصے میں اپنی بہن کو دے دیا ہے اور میں اُن کو آپ کی طرف سے لکھا گیا تعریفی میسج فاروڈ بھی کرتا ہوں اور آپ کی طرف سے نیک خواہشات بھی اُن کو پہنچاتا ہوں  اب آپ خود سوچیں کہ کوئی انتھائی اچھا آدمی ہی اپنی پراپرٹی اپنی بہن کو دے سکتا ورنہ ہم لوگ بہنوں کی شادی کے بعد اُن سے حقیقی طور پر لاتعلق اور بری الذمہ ہوجاتے ہیں کہ شادی کرواکر ہم اپنا فرض پورا کردیا اب آگے بہن کا شوہر جانے اور اُس کی قسمت

  آج وہ ریٹائر ہو گئے ہیں، مگر سندھ کی زمین پر ان کے قدموں کی مہک باقی ہے۔ انہوں نے جناب غلام نبی میمن صاحب کی طرح پولیس کی ویلفیئر کیلئے  ایک مضبوط نظام چھوڑا، بلکہ یہ سبق دیا کہ "عہدہ بڑا نہیں ہوتا، انسان بڑا ہوتا ہے۔” ان کی دیانت، انصاف پسندی، اور عوامی خدمت کی باتیں سندھ کی عوام کو ہمیشہ یاد رہیں گی –  اے ڈی خواجہ کا سفر بتاتا ہے کہ جب انسان اپنے فرض کو عبادت سمجھ کر نبھاتا ہے تو تاریخ اس کے نام کو سنہری حروف میں لکھ دیتی ہے۔ آج بھی سندھ کے دیہاتوں میں لوگ کہتے ہیں کہ "خواجہ صاحب جیسے افسر آگر ہمارے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ ہوتے تو ہمارا نظام سنور جاتا۔